Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khurram Masood
  4. CPEC

CPEC

سی پیک

کہا جاتا ہے کہ دشمن بھی خاندانی ہونا چا ہئے تاکہ دشمنی کا کوئی معیار تو ہو۔ ملکی سطح پر دو طرفہ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں قوم کے وسیع تر مفاد میں مشکل فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ پاکستان آئین کے مطابق علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تما م ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے خطہ میں اور دنیا میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔

دوسری طرف ہندوستان ہمسایہ ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی راہ میں ہر فورم پر رکاوٹ اور سازشوں میں ملوث رہتا ہے تاکہ پاکستان کی ترقی میں روکاوٹیں پیدا کر سکے۔ پاکستان کی دوستانہ اور امن پالیسی کو بھارت نے پاکستان کی کمزوری سمجھ کر ہمیشہ نقصان اٹھایا ہے۔ بھارت کی وزارت خارجہ کا سی پیک کے حوالے سے متضاد بیان بھارت کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔ جس پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنا مؤقف واضح کیا ہے۔

پاکستان نے بھارتی وزارت خارجہ کے سی پیک پر مضحکہ خیز ریمارکس مسترد کر دیے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ بھارتی بیان سی پیک کو سیاسی بنانے کی مذموم کوشش جبکہ سی پیک میں چین کی سرمایہ کاری نے پاکستان کو توانائی اور بنیادی ڈھانچے کی رکاوٹوں پر قابو پانے میں مدد کی۔ سی پیک خطے کے لیے استحکام، باہمی تعاون اور مشترکہ ترقی کا محور ہے۔

پاکستان اور چین نے جوائنٹ ورکنگ گروپ کے تیسرے اجلاس میں سی پیک میں مشترکہ مفاد کے اصول کے تحت کسی بھی تیسرے ملک کی شمولیت کا خیر مقدم کا فیصلہ کیا ہے، ورچوئل اجلاس میں سی پیک کے کاموں کو جاری رکھنے اور وسعت دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ ممکنہ طور پر یہ تیسرا ملک افغانستان ہو سکتا ہے۔ افغانستان کی ماضی کی حکومتیں امریکہ اور بھارت کے گہرے اثر رسوخ کے باعث سی پیک کا حصہ بننے کی پیشکش کو مسترد کرتی چلی آ رہی تھیں۔

اب طالبان نے اس منصوبے میں شامل ہونے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جس کے بعد تیسرے ملک کی شمولیت کی راہ ہموار ہوتی جا رہی ہے۔ دو ڈھائی سال قبل سعودی عرب نے بھی گوادر میں آئل ریفائنریز لگا کر منصوبے میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے ساتھ چین کی حکومت نے وزیراعظم شہباز شریف کی کامیابی پر مبارکباد کے پیغام کے ساتھ ہی کہا تھا کہ ان کی اس منصب پر تعیناتی کے بعد سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار تیز ہو گی۔

اسے شہباز شریف نے بھی وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں چین کے ساتھ دوستی کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ ایک طرف پاکستان سی پیک پر ہمسایہ ممالک کو ساتھ لیکر چلنا چاہتا تو دوسری طرف بھارت پوری قوت سے امریکی ایما پر سی پیک کو روکنے کی کوششوں میں ملوث رہتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل چینی سفیر نے بھارت کے ایک دورہ کے دوران بھارتی قیادت کو دو ٹوک انداز میں پیغام دیا تھا کہ بھارت سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں سے باز رہے۔

چینی وزیر خارجہ نے بھارتی مشیر قومی سلامتی اجیت دوال اور وزیر خارجہ جے شنکر سے بات چیت میں یہ تنبیہ کی تھی اور اسلام آباد میں چینی سفارت خانے نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ سی پیک کے خلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت 19 ارب ڈالر کے دس منصوبے مکمل کئے جا چکے جبکہ 12 منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں۔

سی پیک سے پاکستان میں 2030 تک روزگار کے سات لاکھ سے زیادہ مواقع پیدا ہو ں گے۔ جس سے غربت کی شرح میں کمی اور بے روزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی، سی پیک کی تکمیل سے پاکستان میں خوش حالی کے نئے دروازے کھلیں گے۔ چینی سفارت خانے کی طرف سے یہ یقین دہانی خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ باون بلین ڈالر کا سی پیک منصوبہ پاکستان کی معیشت ہی نہیں اس کے عالمی اور علاقائی رول کے حوالے سے گیم چینجز کہلاتا ہے۔

سی پیک پاکستان کے مستقبل کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا جس میں گوادر بندرگاہ کا اہم کردار ہو گا۔ منصوبہ کے پہلے مرحلے کے تحت توانائی کے کئی بڑے منصوبے بشمول ہائیڈرو، ونڈ اور سولر پراجیکٹس پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔ مزید برآں سی پیک دوسرے مرحلے میں داخل ہوا ہے جس میں صنعت کاری، زراعت، لوگوں کی سماجی فلاح و بہبود، غربت کے خاتمے اور سبز معیشت پر خاص توجہ مرکوز ہے۔

پاکستان نے اس منصوبے کے لئے عالمی دباؤ کا مقابلہ کیا ہے، دہائیوں سے پاکستان پر پڑنے والے اکثر عذابوں کا براہ راست یا بلا واسطہ تعلق اسی منصوبے سے ہے۔ اسی منصوبے کی امید پر پاکستان مشکل لمحوں کو ٹالتا رہا ہے اب امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد اس خطے کے دوسرے ممالک کیساتھ مل کر اس منصوبہ کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا وقت ہے۔

Check Also

Riyasat Se Interview

By Najam Wali Khan