1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khansa Saeed/
  4. Rasta De Aye Hajoom e Shehar Ghar Jayen Ge Hum

Rasta De Aye Hajoom e Shehar Ghar Jayen Ge Hum

راستہ دے اے ہجوم شہر گھر جائیں گے ہم

ایک فرانسیسی رائیٹر گستاف لی بون Gustave Le Bon" نے اپنی کتاب "Psychology of Crowd" میں ہجوم کی نفسیات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہجوم کسی منصوبے کے تحت جمع ہو، بلکہ یہ اچانک جمع ہو جاتا ہے اور مجمع کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس میں موجود ہر شخص اپنی انفرادیت کھو کر مجمع کا حصہ بن جاتا ہے۔ چاہے وہ امیر ہو یا غریب، سب یکساں ہو جاتے ہیں اور اسی عمل سے ہجوم کی طاقت بنتی ہے۔

ہجوم کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے اور کوئی ضابطہ نہیں ہوتا ہے، اس لیے وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ سوسائٹی کو بدل سکے۔ وہ وقتی انتشار پیدا کرتا ہے اور پھر بکھر جاتا ہے۔

گزشتہ دو دنوں سے ہجوم نے ایک ناول نگار کو گھیر رکھا تھا۔ جن کو ناول کے نا پس منظر کا پتہ تھا۔ نا یہ معلوم کہ کردار کس تناظر میں آپس میں مکالمہ کر رہے ہیں، صرف ناول کی ایک لائن کو لے کر ہجوم نے اُس ناول نگار کو اتنا ذلیل کیا کہ اب تک اُس کی ذہنی حالت، ذہنی سکون اُس کو باڈر لائن پر کھڑا محسوس ہوتا ہوگا۔

پھر کل ہی اچانک ایک متشدد ہجوم اُمنڈ کر سامنے آیا۔ وہ ہی ہجوم جو اب ہر گلی محلے، چوک چوراہے، سڑکوں پر بالکل تیار بیٹھا ملے گا۔ بس ذرا سی ہوا کی دیر ہے سونامی کی طرح بپھر کر تباہی مچا دے گا۔ اب کی بار ہجوم کی غیرتِ مسلم ایک خاتون کو دیکھ کر جاگ اُٹھی تھی۔ اُس کی زد میں ایک خوفزدہ، ڈری سہمی، چہرے پر وحشت طاری کیے ہجوم سے پناہ مانگتی ایک عورت تھی۔ جس کا سر انہوں نے تن سے جدا کرنا تھا۔

یہ ویسا ہی ہجوم ہے جس سے بہت سے سانحات منسوب ہیں۔ جو کبھی کسی کو زندہ جلا دیتا ہے۔ تو کبھی ڈنڈے اور لاٹھیوں سے خون خرابہ کرتا نظر آتا ہے۔ کبھی انسانوں پر گولیاں چلاتا ہے تو خنجر سے وار کرتا ہے۔

یہ دو طرح کے ہجوم جن میں سے ایک سوشل میڈیا پر اکٹھا ہو کر سامنے والے کو ذہنی تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ اور دوسرا ہماری سڑکوں پر اچانک جمع ہو جانے والا متشدد ہجوم جو انسانوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بناتا۔ ان دونوں طرح کے ہجوم میں پھنسا ہوا ایک اکیلا انسان ان کی منت سماجت کرتا ہے اور صرف اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

راستہ دے اے ہجوم شہر گھر جائیں گے ہم

اور تیرے درمیاں ٹھہرے تو مر جائیں گے ہم

ہجوم کی نفسیات شاہ دولے کے اُن چوہوں جیسی ہے۔ جن کے سروں پر اُن کے مالکان بچپن سے ہی ایک فولادی کنٹوپ رکھ دیتے ہیں تا کہ اُن کی ذہنی نشوونما رک جائے۔ نا وہ کچھ سوچ سکیں نا تحقیق کریں نا اُن میں فکر تدبر پروان چڑھے۔

ہمیں اپنے اپنے گھروں میں بچوں کی تربیت کرتے ہوئے اُن کو غور و فکر کرنا، تحقیق کرنا، تدبر کرنا، برداشت اور صبر سے کام لینا سیکھانا ہوگا، عورت کی عزت کرنا سیکھانا ہوگا، معاملات کو جذبات سے نہیں بلکہ ہوش مندی سے ہینڈل کرنا سیکھانا ہوگا تا کہ آنے والی نسلوں میں ایسا مشتعل ہجوم اکٹھا ہی نا ہو۔

Check Also

Come On Yar

By Mirza Yasin Baig