Mufeed Ghaltiyan
مفید غلطیاں
کولمبس نے یورپ سے مشرق کی طرف بحری راستہ کھوجتے ہوئے، ایک غلطی کی اور اس سے اُسی غلطی کے نتیجے میں امریکہ دریافت ہوا، اس دریافت نے اس کے اپنے اندازوں کی نسبت کہیں زیادہ شدت سے تاریخ عالم پر اپنے اثرات چھوڑے۔ اس کی دریافت نے نئی دنیا میں سیاحت اور کالونیاں قائم کرنے کے دورکا آغاز کیا۔ یہ واقعہ تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔
الیگزینڈر فلیمنگ نے 1928 میں ایک بڑی غلطی کی جس کے نتیجے میں دنیا کی پہلی اینٹی بائیوٹک پنسیلین ایجاد ہوئی۔ جس سے آج تک پوری دنیا کے انسان مستفید ہو رہے ہیں۔ ہوا یوں کہ الیگزینڈر فلیمنگ مختلف جرثوموں پر اپنی تحقیق میں مصروف تھے کہ انہیں چند ایام کے لیے کہیں جانا پڑا وہ اپنے جرثوموں کے نمونے زیادہ احتیاط سے محفوظ کیے بنا ہی نکل پڑے وہ دو ہفتوں بعد جب واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ جرثوموں کو پھپھوندی لگی ہوئی تھی جس نے جراثیموں کو کھا لیا تھا اور یہ سارا کمال پینلسین کا تھا جو آج طب کی اہم ترین دریافت مانی جاتی ہے۔
1878 میں روسی کیمیا دان کنسٹنٹن فاہلبرگ پروفیسر ایرا ریمزین کی لیبارٹری میں کام کر رہے تھے جب انہوں نے بے دھیانی میں انگلی منہ کو لگائی تو اُن کو ادارک ہوا کہ یہ تو مٹھاس سے بھر پور کیمیکلز ہیں فاہلبرگ نے اُنہی کیمیکلز سے سکارین بنایا جس سے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مصنوعی مٹھاس پیدا کرنے والی گولیوں کی تیاری ممکن ہوئی۔
1958 میں ایک امریکی انجینیئر ولسن گریٹ بیچ انسانی دل کی دھڑکن کو سننا اور ریکارڈ کرنا چاہتا تھا جس کے لیے اس نے ایک مشین بنائی۔ لیکن ولسن نے اس مشین میں ایک پرزے ریززٹر کا غلط سائز نصب کردیا، جب یہ مشین کام کرنا شروع ہوئی تو یہ دل کی دھڑکن کو ریکارڈ کرنے کے بجائے الٹا اسے ایک برقی دھڑکن (توانائی کی ایک لہر) دینے لگی۔
تب ہی ولسن پر انکشاف ہوا کہ وہ غلطی سے ایسی مشین ایجاد کر بیٹھا ہے جو ان افراد کو مصنوعی دھڑکن دے سکتی ہے جو امراض قلب کا شکار ہوں۔
1826 میں جان والکرنے کچھ ایسا دریافت کیا جو آج ہر گھر کی ضرورت ہے۔ حادثاتی طور پر ہوئی اس ایجاد کی کہانی کچھ یوں ہے کہ انہوں نے ایک تیلی پر کچھ کیمیکلز لگائے اور حادثاتی طور پر اسے اپنے آتش دان سے رگڑا تو اچانک آگ بھڑک اٹھی اور یوں حادثاتی طور پر عہد حاضر کی ماچس ایجاد ہوئی۔ یہ تمام تر سائنسدانوں کی وہ غلطیاں ہیں جن پر اُن نے مزید کام کیا اور پوری دنیا کے انسانوں کو فائدہ پہنچایا اس کے علاوہ مائیکروویو، ڈرائی کلیننگ، ایکس رے مشین، سب ایجادات ان کے موجدوں کی عظیم غلطیاں ہی تو تھیں کہ انسان اُن غلطیوں سے مستفید ہوتے گئے۔
انسان بہت سے معاملات سے بہت کچھ سیکھتا ہے پورا ماحول ہمیں کچھ نہ کچھ سکھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے مگر عام مشاہدہ ہے کہ انسان سب سے زیادہ اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے کسی بھی معاملے میں کی جانے والی یا سرزد ہو جانے والی غلطی ہمارے اور ہماری آنے والی نسل کے لیے سبق سے کم نہیں ہوتی۔
دودھ خراب ہو جائے تو دہی بن جاتا ہے۔ دہی دودھ سے زیادہ قیمتی ہے۔ اگر یہ اور بھی خراب ہو جائے تو یہ پنیر میں بدل جاتا ہے۔ پنیر دہی اور دودھ دونوں سے زیادہ قیمتی ہے اور اگر انگور کا رس کھٹا ہو جائے تو یہ شراب میں بدل جاتا ہے جو کہ انگور کے رس سے بھی زیادہ مہنگا ہے ہم اس لیے برے نہیں ہوتے کہ ہم غلطیاں کرتے ہیں، بلکہ اصل ناکامی تو اپنی غلطیوں کو تسلیم نا کر ان کو چھپانا ان پر پردہ ڈالنا ہے غلطیاں وہ تجربات ہیں جو ہمیں ایک شخص کے طور پر زیادہ قیمتی بناتے ہیں۔
انسان کا اپنی غلطیوں کو مان لینا اپنی کمزوریوں کا اظہار کرنا بعض اوقات انسان کو تکلیف میں جھکنے کو کہتا ہے مگر کامیابی حاصل کر لینے کے بعد یہ خوشی، محبت اور تعلق کو مسلسل بنائے رکھنے جیسے جذبات کی جائے پیدائش بھی تو ہے۔
غلطی کرنا اور پھر اپنی غلطیوں سے سیکھنا ان کو خندہ پیشانی سے تسلیم کرنا گہرے مقصد اور معنی کی تلاش کا جواب ہے یہ منقطع ہونے کا تریاق ہے۔ اس لیے غلطیاں کریں مگر ان پر اپنی نا اہلی کا پردہ نا ڈالیں۔