Boorhe Bargad Ki Ashufta Haali
بوڑھے برگد کی آشفتہ حالی
سردیوں کی خوشگوار دھوپ اپنی نرم گرم کرنیں ماں کی محبت کی طرح بلا معاوضہ ہر ایک کو دان کر رہی تھی۔ ہر وہ چیز جس پر یہ مہربان کرنیں پڑتیں کسی شہزادی کے تاج میں جڑے نگینوں کی طرح چمکنے لگتی۔ اشجار پر طیور اپنی خوش الحان آوازوں میں محفلِ موسیقی جمائے بیٹھے تھے۔ پودوں کے ارد گرد قوس قزح سے ست رنگ چرائے تتلیاں محوِ رقص تھیں۔
فضا میں ایک طرف تو کیتکی کی پھبن، موتیا کی دلفریب ادا، نسترن اور سمن کا الہڑ جوبن، بنفشہ اور ناز بو کا خوش رنگ پیراہن بھینی بھینی عطر بیز نسیم بہار کا مژدہ سنا رہے تھے تو دوسری طرف انہی گلوں کی پتیوں پر بیٹھی شہد کی مکھیاں اپنی پیاس بجھا رہی تھیں۔
فروری کے آخری ایام میں دھوپ میں گرمی کی ہلکی سی شدت محسوس کرنے پر یونیورسٹی کے طلباء و طالبات نے اپنے سویٹر، جیکٹیں اُتار کر اپنے بازوؤں اور شانوں پر لٹکا رکھے تھے۔ ہر کوئی اس خوبصورت ماحول میں ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ ایسے میں وہ ہاتھ علی پور کا ایلی ناول پکڑے، دائیں کندھے پر بستہ لٹکائے، آنکھوں پر بڑے بڑے چشمے سجائے، خوبصورت چمکدار لمبے بالوں کو بڑے سلیقے سے باندھے ہوئے اپنی ہی دنیا میں مست مگن بوڑھے برگد کے پیڑ تلے بیٹھ کر اپنا ناول مکمل کرنے لگی۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ نظروں سے ناول پڑھ رہی تھی مگر کان اردگرد کی چہ مگوئیاں سننے میں مصروف تھے۔ سر سبز گھاس پر بیٹھے طلباء روز کی طرح آج بھی اُسے محترمہ اُردو دان کہہ کر ایک دوسرے کے کانوں میں کھسر پھسر کرتے اور زور دار قہقہہ لگاتے، قہقتے پر اُس کے کان مزید کھڑے ہو جاتے تو وہ ناول سے نظریں اُٹھا کر اُن سے کہتی۔
کیا تم لوگ خاموش نہیں بیٹھ سکتے؟ اس پر سب یک زبان ہو کر کہتے ارے محترمہ اُردو دان یہ موٹے موٹے خالص اُردو ناول پڑھ کر کیوں اپنا وقت برباد کرتی ہیں آپ۔
یہ اُردو، اُردو ادب محض وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں پھر ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے کہتے آخر پاکستان کی جامعات میں اُردو میں بی ایس، ایم اے اور ایم ایس کراتے ہی کیوں ہیں۔ دیکھو بھئی جدید سائنسی اور مصنوعی ذہانت کے دور میں اُردو پڑھنے والے بڑے ہی احمق ہیں، چلو فرض کرو یہ اگر اُردو ادب میں ڈگری لے لیں تو نوکری کون دے گا انہیں۔ اُردو کی اہمیت ہی کیا ہے اس مُلک میں، گزشتہ ستر برسوں میں یہ اپنا مقام تو بنا نہیں سکی ہے۔ ان باتوں پر ردِعمل کے طور پر بس اُس کی آنکھوں سے آنسو نکلتے، مگر منہ سے کچھ بولے بنا وہ چپ چاپ ناول پڑھتی رہتی۔
٭٭٭
رامین ایک خود اعتماد لڑکی تھی۔ اُسے اُردو ادب سے بہت لگاؤ تھا۔ بچپن سے ہی کلیاتِ اقبال، دیوانِ غالب اُس کی پسندیدہ کتب میں شامل تھیں وہ وہاں سے اشعار یاد کرتی اور اپنے باپ کے پاس بیٹھ کر بڑے ترنم، ہم آہنگی کے ساتھ اشعار پڑھتی کہ اُس کے بابا خوش ہوتے اور دل ہی دل میں سوچتے، شاعرہ بنے گی میری بیٹی۔ ہر کلاس میں اُس کے اُردو کے پرچے میں سب سے زیادہ نمبر آتے، سکول سے کالج گئی تو اپنی مرضی سے اُردو ادب مضمون رکھا اور اب یونیورسٹی میں بھی وہ اُردو ادب میں بی ایس کر رہی تھی۔ مگر جب سے اُس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا تب سے ہی آہستہ آہستہ اُس کی ساری خود اعتمادی زائل ہوتی جا رہی تھی۔
دوسرے مضامین اور خاص طور پر سائنسی مضامین پڑھنے والے طلبا و طالبات اُردو پڑھنے والے طلباء کو کم تر سمجھتے اُنہیں تضحیک کا نشانہ بناتے وہ اس بات کو لے کر پریشان ہوتی اور سوچتی کیا اُردو ادب کو پڑھنے کا وہ غلط فیصلہ کر بیٹھی ہے۔ پھر اُس نے دیکھا کہ یونیورسٹی میں دوسرے مضامین کے اُساتذہ کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ اُردو پڑھانے والے اساتذہ کو نہیں ملا۔ صرف یہ ہی نہیں اُس کے خاندان کے لوگ بھی اُس سے اسی وجہ سے امتیازی سلوک کرنے لگے، اُس کے اعتماد کی حالت یہ ہوگئی کہ جب بھی اُس کے گھر کوئی مہمان آ کر پوچھتا۔
"بیٹی کون سے مضمون میں بی ایس کر رہی ہو؟" تو وہ بتاتے ہوئے ہچکچاتی اور فورا بول دیتی میں ادب میں بی ایس کر رہی ہوں سامنے والا اگر کوئی سمجھ بوجھ رکھنے والا ہوتا تو فورا پوچھتا کون سے ادب انگریزی ادب یا اُردو ادب تو وہ ہلکی سی آواز میں کہتی اُردو ادب۔
انہی باتوں نے اُس کے ذہنی سکون کو برباد کر دیا تھا اِسی لیے وہ جب بھی اپنی کلاس سے باہر دھوپ میں کچھ دیر کے لیے سستانے بیٹھتی تو کسی سے بات نا کرتی، بلکہ بوڑھے برگد کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر کسی نا کسی ناول یا تنقیدی کتب کا مطالعہ کرتی رہتی۔ پوری یونیورسٹی میں سے اُسے صرف اُس بوڑھے برگد سے لگاؤ تھا اُسے یوں محسوس ہوتا کہ جب بھی وہ اس پیٹر کے سائے میں بیٹھ کر مطالعہ کرتی ہے تو برگد کا درخت خوشی سے جیسے کِھل اُٹھتا ہو۔
آج بھی وہ وہاں بیٹھے مطالعہ کر رہی تھی کہ پاس بیٹھے ایک گروپ نے اُردو کو کوسنا شروع کر دیا۔ ناول پڑھتے ہوئے اُس کی دوست نے اُسے فون کرکے بتایا کہ ڈاکٹر عباس آ گئے جلدی کلاس میں آؤ وہ اُٹھی اور کتب خانے میں ناول واپس رکھ کر کلاس کی طرف چل پڑی۔
کلاس میں بے دلی سے بیٹھی نوٹس بناتی سوچتی رہی کیسا احساس کمتری اس ملک کے لوگوں کی رگوں میں دوڑنے لگا ہے اور جہالت تو دیکھو ان کی اپنی قومی زبان سے نفرت کرتے ہیں اپنی قومی زبان کو ہی مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ قومی زبانیں تو اپنے اندر تہذیب و ثقافت کو جذب کرکے رکھتی ہیں قوموں کی یک جہتی اتحاد کا راز ہی قومی زبان کی ترقی میں مضمر ہے۔
گھر واپس آ کر ابھی اُس نے اپنی فیس بُک کھولی ہی تھی کہ فیس بُک پر ایک خبر بڑے روز و شور سے گردش کر رہی تھی۔ کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں ایک انگریزی سکول میں بچے کو اُردو زبان میں بات کرنے کی سزا دی گئی، بچے کے منہ پر کالک لگائی گئی اور پھر دوسرے بچوں کو اس کا مذاق بنانے کا کہا گیا۔
یہ خبر پڑھ کر اب وہ پریشان نہیں ہوئی بلکہ اپنی قومی زبان کی اہمیت پر اپنی دوستوں کو ساتھ ملا کر سوشل میڈیا پر مہم چلانے لگی۔ اُس نے خود سے عزم کر لیا کہ وہ اب اُردو زبان کی ترقی و ترویج میں نا صرف اپنا بلکہ اپنے شعبہ اُردو کا نام پوری یونیورسٹی میں متعارف کروا کر رہے گی اور پھر یوں ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر نفاذ اُردو کے حوالے سے لوگ اس کی بات نا صرف سننے لگے بلکہ اس کی بات کو اہمیت بھی دینے لگے۔
ان ہی دنوں یونیورسٹی میں"ترقی کا راز قومی زبانوں کا نفاذ "کے نام سے ایک تین روزہ مکالماتی نشت کا انعقاد کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر اُس کی اُردو زبان کے حوالے سے سر گرمیاں دیکھتے ہوئے اُسے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ یہ خبر سن کر وہ خوشی سے نہال ہوگئی اور بے چینی سے اُس دن کا انتظار کرنے لگی۔ بلآخر مکالماتی نشت کا آغاز ہوا پہلے دو دن پاکستان بھر کی جامعات میں سے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے آخری دن جرمنی، جاپان، چین کی جامعات سے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کو مدعو کیا گیا تھا ساتھ میں جامعہ والوں نے اپنے طلباء کو اُسی دن اپنی رائے کے اظہار کرنے کو کہا تھا جن میں رامین بھی شامل تھی۔ مکالماتی نشت کے سامعین میں اُس دن جامعہ کے طلباء و طالبات بھی شامل تھے وہ اسٹیج پر آئی اور بولنے لگی۔
"آپ لوگوں نے وہ سامنے نظر آنے والا عمر رسیدہ برگد کا درخت دیکھا ہے جو دیکھنے میں غیر فانی اور ابدی محسوس ہوتا ہے نہ جانے کتنی مدت سے وہ تن و تنہا اور خاموش کھڑا ہے برقرار اور بیقرار، بے زبان بھی اور نغمہ زن، معلوم نہیں کتنی مرتبہ کڑکڑاتی سردیوں میں اپنی بے برگ شاخوں سے کوہاسہ کی چادر ہٹا کر اس نے فریاد کی ہوگئی، نہ معلوم کتنی مرتبہ آتشیں گرمیوں میں اپنی پیاسی اور حسرت بھری لاتعداد آنکہیں اس نے آسمان کی طرف اُٹھائی ہیں۔ یہ اپنی مہربان شفیق چھاؤں میں ہر ایک کو بٹھانا چاہتا ہے مگر کوئی بھی اس کی چھاؤں میں بیٹھنا پسند ہی نہیں کرتا۔
یہ ہی حال ہماری ستر سال پرانی قومی زبان اردو کا ہے کہ جس کے ساتھ کئی برسوں سے برتی جانے والی بے رخی نے اب موجودہ دور میں اُسے لاغر اندام بنا دیا ہے۔ یہ تو سب کے ساتھ شفقت اور محبت سے پیش آتی ہے مگر کوئی اس سے محبت نہیں کرتا، یہ اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں پر نوحہ کناں ہے کہ آخر کیوں اس کو سرکاری، دفتری، عدالتی اور تعلیمی زبان کے طور پر نافذ نا کیا گیا۔ قومی زبان اپنی قوم سے اپنے محافظوں سے ہر ایک سے سوال کرتی ہے کہ اس کو نافذ کرنے میں اتنی ہچکچایٹ کیوں ہے۔ آخر یہ کب تک یوں ہی زبوں حال رہے گی"۔
ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ پیچھے بیٹھا وہ ہی گروپ کہنے لگا، ارے محترمہ اُردو دان تم تو اپنا اُردو نامہ بند کرو دوسروں کو بھی بولنے کا موقع دو۔
وہ غیر ملکی مہمانوں کے سامنے اُن میں سے کسی کے منہ نہیں لگنا چاہتی تھی اور تہذیب کا تقاضا بھی یہ ہی تھا کہ وہ اپنی بات تو کہہ چکی تھی اب چپ چاپ اسٹیج سے اُتر جائے۔ اس کے بعد دوسرے ملکوں سے آئے ڈاکٹرز نے اپنی اپنی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا تو دوبارہ پیچھے سے ایک آواز بلند ہوئی سر انگریزی میں بات کریں ہمیں آپ کی زبان کی سمجھ نہیں آ رہی ایسے میں پاس کھڑا مترجم اُردو زبان میں بولا "یہ کہہ رہے ہیں قوموں کی ترقی کا راز قومی زبان کی ترقی و ترویج میں پنہاں ہے"۔
اس بات پر شعبہ اُردو کے طلباء و طالبات کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگے۔