Pyare Dada Jan
پیارے دادا جان (دیہی دانش کی عمدہ مثال)
پیارے دادا جان چوہدری اللہ داد جٹ کوروٹانہ کا خمیر ضلع گجرات، تحصیل کھاریاں کے گاؤں عموآنہ کی مٹی سے اٹھا، وہ قد آور، بارعب، صاف گو مگر ان پڑھ تھے، ہمیشہ اُجلا لباس پہنتے، انکی شخصیت "دیہی دانش مندی" کی عملی تعبیر تھی۔ نامساعد حالات نے وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا، ایک وجہ تو انکی زمین کا بڑا حصہ برساتی نالہ کی نذر ہونا اور دوسرا سماجی ماحول مزاج سے مطابقت نہ رکھتا۔
پہلا پڑاؤ اپنے تین بھائیوں کے ساتھ لائل پور(فیصل آباد) کے دیہات ہری سنگھ 233گ ب میں کیا شاہ محمد اور محمد رمضان سے دادا بڑے تھے، مذکورہ دیہات میں زمین ٹھیکہ پر لے کر کاشتکاری شروع کی، سکھوں ہندووں کی ہجرت کی وجہ سے گاؤں کی نمبر داری ان کے حصہ میں آئی، شاہ محمد نمبر دار بنے، بچوں کو پڑھانے پر توجہ مرکوز کی، شاہ محمد کے بیٹے چوہدری نذر محمد شعبہ زرعی انجینئرنگ سے ڈائیریکٹر جبکہ محمد رمضان کے بیٹے چوہدری نذیر حسین زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ڈپٹی خزانہ دار، بشیر احمد عرف بابو ائر فورس سے چیف وارنٹ آفیسر کے عہدہ سے ر یٹائرڈد ہوئے۔ تیسرے بیٹے رشید احمد بھی محکمہ زراعت سے وابستہ رہے۔
راقم کے تایا محمد اسماعیل صوبیدار اور والد محترم چوہدری محمد اصغر چیف وارنٹ آفیسر کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے، دادا کے تیسرے بیٹے محمد اشرف نے بطور استاد بلا معاوضہ سرکاری سکول میں خدمات انجام دیں۔ چوہدری نذر محمد دادا جی کے بھتیجے بڑے جہاندیدہ تھے، پورے خاندان میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔
دادا جان نے چالیس کی دہائی کے آواخر میں دوسری ہجرت ضلع وہاڑی کے گاؤں چک نمبر190/W.B میں کی، یہاں ایک مربع زرعی رقبہ خریدا، جب انگریز ہاتھ دیکھ کر مفت زمین کسان کو دیتے تاکہ جنوبی پنجاب میں آباد کاری کی جائے، ہر چند دادا جان ان پڑھ تھے مگر انھوں پہلا کام باغ لگانے کا کیا، اُس وقت دور دور تک کوئی باغ نہیں لگا تھا، ان کا معمول تھا کہ نماز کے بعد وہ اپنے ڈیرہ پر جاتے، باغ کی سیر کرتے، ملازموں کو ہدایات دیتے، حسب معمول باغ میں گئے تو دیکھا کہ انکے بیٹے، بھتیجا، اور پوتا باغ میں پڑھ رہے ہیں، وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرلی، وہ گویا ہوئے کہ جب ہم ہری سنگھ گاؤں میں تھے، تو وہاں ہری سنگھ کا باغ تھا ایک روز میں سیر کرتے وہاں نکل گیا میں نے دیکھا کہ اس کے بچے باغ میں پڑھ رہے ہیں، اُسی وقت میرے دل سے دعا نکلی یا باری تعالیٰ مجھے بھی اپنے باغ میں اسی طرح اپنے بچوں کو پڑھتے ہوئے دیکھنے کی توفیق دینا، اللہ تعالیٰ نے یہ دن آج مجھے دیکھا یا ہے۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
چالیس کی دہائی میں نئے آباد کاروں کو معاشی تنگ دستی کا بہت سامنا تھا، دادا جان خوشحال تھے اپنے بیٹے، پوتے، پوتی کو ملتان میں کرا ئے پر مکان لے کر تعلیم دلوائی۔
ان پڑھ ہونے کے باوجود ان کے عقائد خالصتاً توحید پر مبنی تھے، اُس دور میں، خواتین میلے، ٹھلیوں میں جاتی تھیں، مگر ان کے گھر مرد و خواتین کو کسی دربار اور مزار پر جانے کی ہر گز اجازت نہ تھی، نہ ہی گھر کی خاتون گاؤں میں دوکان پر جاسکتی نہ ہی کسی خوانچہ فروش سے چیز خریدتی، جب نئے گاؤں آئے تو کسی بھی فرد کا بلا اجازت ایک دوسرے کے گھرآنے جانے کا چلن عام تھا، زیادہ تر ایک ہی برادری کے لوگ مقیم تھے، مگر دادا جی نے اس کلچر کا حصہ بننے سے انکار کیا، کسی کو بغیر دستک ہمارے گھر آنے کی اجازت نہ تھی۔ گاوں کی خواتین دھوتی بھی پہنتی تھی، مگر ہمارے گھر میں اس لباس کو پہننے کی قطعی اجازت نہ تھی۔
لین دین ہر خاندان کی ضرورت ہے مگر دادا کا حکم کہ کوئی فرد آپ کے در پر قرض کی رقم لینے نہ آئے اگر آپ نے کسی کو قرض دیا ہے تو اسے وصول کرنے اس کے گھر مت جانا بلکہ ادائیگی تک انتظار کرنا، ہر گاؤں کا کلچر تھا کہ کام کرنے والے "کامے" جب کسی کے گھر جاتے تو وہ زمیندار کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے تھے، جبکہ دادا جی نے اس فرسودہ رسم کو ختم کیا اور انھیں عزت کا مقام دیا، یہ روایات اب تلک جاری ہیں۔
داداجان کی تعلیم سے رغبت کا نتیجہ کہ ہمارا گھرانہ پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتا ہے، ان کے بڑے بیٹے محمد اسماعیل صوبیدار نے گاؤں میں طالبات کا پرائمری سکول منظور کروایا، جبکہ ان کے چھوٹے بیٹے محمد اشرف نے طلباء کا پرائمری سکول منظور کروایا اور گرلز سکول کی آپ گریڈیشن میں اہم کردار ادا کیا اور سرکاری رقبہ منظور کروا کر محکمہ تعلیم کے حوالہ کیا، تمام اخراجات اپنی جیب سے کئے، اس مرحلہ کے بعد کلاسز کا آغاز ہونا تھا تو محکمہ تعلیم کے افسران کی ایماء پر ہمارے ہی فیملی کی تعلیم یافتہ بچیوں نے تدریس کے فرائض انجام دیئے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج الحمد للہ گاوں میں بہت ہی طالبات، ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگری کی حامل ہیں۔
دادا جی کے ایک پوتے محمد اکبر مرحوم اپنے حلقہ کے پہلے گریجویٹ تھے، ان کے فرزند محمد سہیل اکبر قطر ائر فورس میں فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں جبکہ دوسرے ڈاکٹر جاوید اصغر نے سید مودودی کی نثر نگاری پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے اور گورنمنٹ ایسوسی ایٹ ڈگری کالج جہانیاں میں بطور پرنسپل فرائض انجام دے چکے، راقم بھی پی ایچ ڈی سکالر، اور لاء گریجویٹ ہے، سب سے چھوٹے پوتے محمد عامر اصغر نے ایم بی اے کیا وہ ان دنوں مانچسٹر میں فیملی کے ہمراہ مقیم ہیں، نسل نو میں سے دادا جی کی پڑپوتی مریم جاوید اصغر سکاٹ لینڈ میں سیاسیات میں پی ایچ ڈی میں زیر تعلیم ہیں، اسی طرح انکے پڑپوتے محمد ریحان ظفر نے قانون جبکہ نعمان ظفر نے اٹلی سے انجینئرنگ کی ڈگری لی، علاوہ ازیں عمر خالد اصغر Businessdata Analysit ڈاکٹر اسامہ جاوید اصغر پبلک ہیلتھ] ایم فل [ آسٹریلیا میں زیر تعلیم ہیں، جبکہ انکی پڑپوتیوں میں عائشہ اکرام ایم فل فزکس، اقراء خالد اصغر ایم فل فوڈ اینڈ نیوٹریشن، سب سے چھوٹی حرا خالد اصغر ڈاکٹر آف فارمیسی ہیں۔ مقام شکر ہے اب خاندان میں کوئی خاتون اور مردو ایسا فرد نہیں جو پڑھا لکھا نہ ہو۔
دیہاتی کلچر کی اہم روایت حقہ نوشی بھی ہے کسی کے فوت ہونے پر حقہ انھیں پیش کیا جاتا جو تعزیت کے لئے آتے در زبانِ پنجابی"پھوڑی" پر بیٹھتے۔ دادا جی نے اپنی پوری حیاتی میں کبھی حقہ، سگریٹ نہیں پیا نہ ہی اپنی اولادکو اسکی اجازت دی، پورے خاندان میں سے کوئی بھی سگریٹ نوشی کی علت میں مبتلا نہیں، انھوں نے وصیت کی کہ میرے مرنے پر کسی کو بھی حقہ پھوڑی پر پیش نہ کیا جائے، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ رمضان المبارک میں اپنے رب کے حضور قریباً سوسال سے زائد عمر میں پیش ہوگئے، اللہ تعالیٰ انھیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے آمین۔