Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khadija Bari/
  4. Qismat

Qismat

قسمت

بیالیس سالہ شہزادی کو دلہن کا روپ دے کر سٹیج پر لایا گیا تو بڑوں اور بچوں سب کی نظریں ان پر جم گئیں۔

شہزادی باجی تو بہت اچھی لگ رہی ہیں، کیا تھا اگر وقت پر شادی ہو جاتی۔

بس بہن رشتے تو بہت آئے بس کبھی باپ کو پسند نہ آیا کبھی ماں کو، یوں ہی عمر نکل گئی پھر بچوں والوں کے رشتے آنے لگے، تو یہ رونے لگتیں اور کہتیں اب شادی نہیں کروں گی، اب باپ کا سایہ سر پر نہ رہا تو عقل آئی۔

بس بہن، نکاح کی جو گھڑی مقرر ہوتی ہے اسی پر نکاح ہوتا ہے، ان کے لئے بھی یہی گھڑی مقرر کی گئی ہوگی۔

ہاں بہن خوش نصیب ہیں خالہ سلمیٰ ورنہ تو لوگوں کی جوان لڑکیاں گھر بیٹھی ہوتی ہیں۔

سنا ہے لڑکا شہزادی باجی سے چھوٹا ہے پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا ہے۔ دو جوان بچے ہیں بیٹی جاب کرتی ہے بیٹا پڑھ رہا ہے محل جیسا گھر ہے۔

شہزادی کی تو لاٹری نکل آئی اس عمر میں۔

بس جی اللہ پاک ان کو خوش رکھے۔

بہت خدمت کی ہے اپنے ماں باپ اور بھائیوں کی اسی کا صلہ دے دیا اللہ پاک نے۔

ہاں شکر ہے سلمیٰ آنٹی کی زندگی میں ہی نکاح ہوگیا اچھا ہے اپنے گھر کی ہوئیں۔

ہال میں چہ مگوئیاں جاری تھیں۔

مما مما، یہ تو بوڑھی دلہن آنٹی ہیں، میں انعم کو بھی بلا کر دکھاتا ہوں اس نے بھی پہلے کبھی بوڑھی دلہن آنٹی نہیں دیکھی ہوگی، بچے ان پر ہنس رہے تھے۔

وہ جو اپنی اماں کی شدید خواہش پر پہلے سے ہی اس عمر میں دلنہاپے کا روپ دھارنے پر خجل سی بیٹھی تھیں یہ سن کر ان کا چہرہ مزید جھک گیا۔

رخصتی تک ہزاروں طرح کی باتیں ہوتی رہیں، ان باتوں کو کانوں سے دل میں اتارتی وہ اپنے کمرے تک پہنچیں۔

دیکھئے ہمیں زوجہ کی کوئی خاص ضرورت تو نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ آپ کی عمر زیادہ ہونے کے باوجود آپ سے نکاح کیا گیا ہے۔ ہاں اس گھر کو ایک عورت کی اشد ضرورت تھی آپ سے نکاح کا مقصد بھی یہی ہے امید کرتا ہوں کہ آپ بخوبی اپنی ذمہ داری نبھائیں گی اور ماہ نور اور دانیال کو بھی آپ سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ یہ آپکا کمرہ ہے آپ اپنی مرضی کے مطابق اس کو ترتیب دے سکتی ہیں، احسان کرتے ہوئے کہا گیا۔

ٹھیک؟ اب میں چلتا ہوں اور ہاں آپ کو جب بھی میرے کمرے میں آنے کی ضرورت ہو آپ دستک دیں گی۔ بن دستک ہمارے یہاں کمروں میں گھسنے کا رواج نہیں۔ انہوں نے اس کی سماعتوں پر ہتھوڑے برساتے ہوئے اس کے قدموں میں بھی لگام ڈال دی۔ پہلے غلام خریدے جاتے تھے۔ حسن صاحب نکاح کے نام پر گویا "غلامی قبول ہے" کہلوا کر بن مول لے آئے تھے۔

شہزادی کا دل چاہا وہ زور زور سے روئے، اس عمر میں بھی اس نے آنکھوں میں خواب سجا لئے تھے کہ چلو دیر سے ہی سہی دکھ سکھ کا ساتھی تو ملا۔ کوئی تو ہوگا جو اس کے قدم سے قدم ملا کر چلے گا۔ اپنے گھر کا احساس تو نصیب ہوگا مگر اس محل میں قدم رکھتے ہی اس کی حسرتوں کا گلا گھونٹ کر ذمہ داریوں کا طوق اسکے گلے میں ڈال کر باقاعدہ غلامی کی سند دے دی گئی۔

ذرا میرے ناخن تو کاٹ دو۔

سر میں تیل لگا دو۔

میرے کپڑے دھو دینا۔

کپڑے استری کر دئیے یا نہیں؟

واش روم کی نالی بند ہوگئی ہے اسے کھول دو۔

سارا دن وہ گھن چکر بنی رہتی، ایک جز وقتی ملازمہ تھی جو صفائی کرکے چلی جاتی تھی باقی سب کام کی ماسیاں ہٹا دی گئی اور کام ان کے ذمے لگا دیے گئے کہ سارا دن کھانا پکانے کے علاوہ کام ہی کیا تھا۔ اب عمر بھی بڑھ گئی تھی ہر ایک کے کاموں کے لئے ہر آواز پر دوڑنے کی ہمت تھی نہ طاقت۔ کام کر کرکے پٹھوں میں کھنچاؤ رہنے لگا تھا۔ مگر وہ ذرا سا شکوہ کرتیں اپنی ٹوٹتی ہمت کا بتانا چاہتیں تو انہیں چھوڑ دینے کی دھمکی ملتی انہیں ان کے لانے کا مقصد جتایا جاتا۔

وہ سہم جاتی پہلے اس عمر میں دلہن بن کر لوگوں کی دبی دبی ہنسی دیکھی تھی اب طلاق کے داغ سے سہم کر وہ چپ چاپ بغیر شکوہ کئے نکاح کے نام پر غلامی کا یہ رشتہ نبھاتی چلی گئیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب گھر پر ہی تھے وہ چائے بنا کر لائیں تو ماہ نور سوٹ دیکھ رہی تھی جو اس نے آن لائن منگوائے تھے، چائے پیش کرنے کے بعد شہزادی نے بھی بے اختیار ایک سوٹ ہاتھوں میں اٹھا لیا۔

یہ رنگ بہت پیارا ہے تم پر بہت جچے گا۔

بہت شکریہ آپ کا مگر آئندہ آپ میری اجازت کے بغیر میری کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگائیں گی مجھے اپنی ذاتیات میں مداخلت پسند نہیں، ان کو ان کی حد بتائی جا رہی تھی وہ آنکھوں میں آنسو لئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔

آج میکہ بہت یاد آ رہا تھا۔ گھر کے کام تو وہاں بھی کرتی۔ مگر اپنی مرضی اپنا اختیار تو تھا۔ بھرا پرا گھر تھا سرگوشیاں تھیں قہقہے تھے۔ بھتیجا بھتیجی پھو پھو کے دیوانے تھے، روٹھنا منانا ناراضگی خفگی بھی ساتھ ساتھ تھی۔ محفلیں تھیں رونقیں تھیں اور یہاں بےگانگی تھی، تنہائیاں تھی، خاموشیاں تھیں۔ اونچی دیواریں تھیں۔ بے ساختہ شہزادی کا دل چاہتا وہ یہ گھٹن ذدہ دیواریں پھلانگ کر اپنے باپ کے آنگن میں چلی جائے، مگر ماں کا ضعیف چہرہ نگاہوں میں گھوم جاتا۔

اگر کبھی گھر والوں سے اپنے دکھ کا اظہار کرتیں تو وہ انہیں اپنے دامن میں سمو لیتے۔ مگر انہیں اس عمر میں شادی کے نام پر ملنے والی یہ غلامی تو قبول تھی مگر رسوائی نہیں۔ شہزادی تو بہت خوش نصیب ہے بڑی عمر میں شادی ہو کر بھی تجھے ٹھاٹھ والی زندگی ملی۔ نہ ساس نہ سسر نہ لمبا چوڑا سسرال ہمیں دیکھ چھوٹی عمر میں شادی ہوگئی تھی جب سے کام کر کرکے مرجھا گئے مگر ابھی تک سسرالی جھنجھنٹوں سے نجات نہیں ملی وہی رہنے کو دو کمرے ہیں اور ان میں ہزاروں بکھیڑے۔

شہزادی کی چچا زاد بولے جا رہی تھی جو آج شہزادی کی محبت میں اس کے گھر آئی تھی اور رشک بھری نگاہ سے شہزادی اور اس کے گھر کو دیکھ رہی تھی اور بولے جا رہی تھی۔ شہزادی خیالوں میں دور کہیں بچوں کی کہانیوں میں دکھائے ہوئے اس محل میں چلی گئی جو سونے کا تھا وہاں بھی ایک شہزادی قید تھی سونے کا ہونے کے باوجود شہزادی ناخوش تھی کیونکہ خواہش اس کے لئے شجر ممنوعہ تھی اور جب خواہش شجر ممنوعہ ہو جائے تو جنت میں بھی دل نہیں لگتا۔ یہ تو پھر دنیا کے محل تھے۔

وہ بھی تو شہزادی تھی دنیا اس کے نصیب پہ اس سے بھی زیادہ نازاں تھی۔ مگر وہ شکوہ تک نہیں کر سکتی تھی کیونکہ پھر وہ ناشکری گردانی جاتی۔ اک آہ اس کے دل سے نکلی۔

اس کی کزن اس کو اداس دیکھ کر چونکی۔

کیا ہوا شہزادی؟

اور اس نے یہ سوچتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا کہ محلوں کے دکھ شہزادیوں کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔

Check Also

Taiwan

By Toqeer Bhumla