Noon Ke Dukh
ن کے دکھ
امی بھوک لگی ہے۔
تو میِں کیا کروں میں۔
کچھ ہے کھانے کو تو دو۔
تمھارے تو معدے کے منہ ہر وقت ہی کھلے پڑے ہیں۔ کچھ نہیں ہے میرے پاس۔
عابد رونے لگا۔
یہ راگ اپنے باوا کو سنا جو پڑا چارپائی توڑ رہا ہے۔ میرے کان پھوڑنے کی ضرودت نہیں۔ اس نے دو تھپڑ لگا کر عابد کو بھگایا۔
اونٹ نہ روئیں، روئیں بورے۔ وہ بڑبڑائی۔
سنا تھا بن روئے ماں بھی دودھ نھیں دیتی۔ آج دیکھ لیا تھا رونے پر بھی نہیں دیا، سکول بند ہو گئے تو کیا زمانے میں کام ہی ختم ہو گیا۔ میرے تو نصیب ہی پھوٹ گئے۔ کینٹین بند ہوگئی تو ریڑھی لگا لے۔ مگر شان میں فرق آتا ہے۔ اولاد ہے تو میری چھاتی پہ مونگ دلتی ہے۔ میاں ہے تو خالی خولی کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ پتا نہیں کب ختم ہو گا یہ لاک ڈاؤن کا عذاب اور سروں پر سے ٹلیں گے یہ۔ اس نے باآواز بلند میاں کو سنائیں۔
ہاں ہاں چلا جاتا ہوں گھر سے، میرا گھر میں بیٹھنا برا لگ رہا ہے۔ نہیں ہے کام تو اپنے آپ کو بیچ دوں۔ صبح سے بکواس کیے جا رہی ہے۔ دو پیسے کما کر نہ دو تو عزت ہی نہیں، خود تو جیسے میں مرغ مسلم اڑا رہا ہوں، انکو کھانے کو نہیں دیتا میں۔ وہ غصے میں گھر کا دروازہ زور سے پٹختا ہوا چلا گیا۔ یہ وہ گھر ہے جہاں روز کا کمانا کھانا ہے۔ اور جہاں کمانا ہو ہی نہ ہو تو ایسے جھگڑے معمول بن جاتے ہیں۔
جہاں وبا نے لاکھوں زندگیوں کو موت کے حوالے کیا وہاں لاک ڈاؤن کی صورت میں غریب اور سفید پوش کو زندگی کے پیروں میں رلنے کے لئےدھکیل دیا۔ بے بسی اور بے حسی کے حوالے کر کے دنیا کا حقیقی روپ دکھایا۔ سانسیں کیسی بوجھل لگیں، جب معیشت نے گھیرا تنگ کیا تو۔ جو دل اور ہاتھ کے سخی تھے۔ جب انکے ہاتھ گردن سے بندھے تو دل مسوس کے رہ گئے۔
کرائے کے مکان کراۓ کی دکان والوں کی کیسی آس ٹوٹی کوئی سہارا نہ بنا کسی نے نہ کہا کہ کوئی بات نہیں، اس وقت آپ کو تنگی ہے۔ اس مشکل وقت میں ہم آپ کے ہمقدم ہیں، اس وقت آپ اپنی ضروریات کو دیکھیں، مگر کان یہ سننے کو ترستے ہی رہے۔ بلکہ دباؤ ڈالا گیا کہ وقت پر ادائیگی نا کرنے کی صورت میں مکان دکان خالی کرنا ہو گا۔ پڑوس پڑوس میں ایک دوسرے کی خبر نا لی گئی۔
غریب ماں باپ شادی شدہ بیٹی کے ہاتھ میں کچھ رکھنے سے رہے، کہ ان کا بھی روز کا بس کمانا کھانا ہی تھا۔ بھائی مجبور ہو کر بہنوں سے نظریں چرا گئے کہ انکی جیبیں خود خالی تھیں۔ جو دعوتوں پہ مدعو کرتے تھے، چپکے چپکے بھی بہنوں بیٹیوں کے ہاتھ پر کچھ دھر دیتے تھے۔ آج خود انکے ہاتھ خالی تھے۔ اذیت در اذیت دیتی یہ وبا مجبوریوں کے ساتھ ساتھ دوریوں کے دکھ بھی لگا گئی۔
چھ چھ فٹ کا فاصلہ تو دیا مگر پردیسیوں کی راہیں طویل کر دیں، اپنوں کے پاس کیسے جائیں کہ لاک ڈاؤن نے قوت خرید کی سکت ہی نہ رہنے دی۔ لاک ڈاؤن میں سانسوں نے اس وقت دہائی دی جب عید پر نئے کپڑوں کا تقاضے ہوئے تو زندگی نے کہا نیا لے کر کیا کرو گے۔ نیا تو کفن ہوتا ہے۔ پرانا ہی پہن لو کہ پرانا پہننا زندہ ہونے کی علامت ہے۔
جب زندگی نے کہا دعوتوں کا اہتمام کر کے دہگیں چڑھا کے کیا کرو گے یہ تو مرنے والے کے رشتے داروں کی طرف سے کڑوی روٹی کے طور پر بھی پکتی ہیں۔ ہنڈیا میں پتھر کا گلنا ہی امید ہے اور امید زندگی کی علامت ہے۔ زندگی نے کہا آنسو پیو، بہاؤ نہیں۔ یہ تمہیں اندر سے سیراب کریں گے۔
آنسو تو مرنے والے کے لئے ہوتے ہیں
تم کیوں روتے ہو۔
بھلا کھانا پینا پہننا بھی کوئی مسائل ہیں۔
زندگی بھگو بھگو کے مار رہی تھی۔ اور وبا دور کھڑی اپنے رہنے کی مدت کے دور رانیے کا اندازہ لگا کر مسکرا رہی تھی۔