1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khadija Bari/
  4. Meri Tassawarati Dunya

Meri Tassawarati Dunya

میری تصوراتی دنیا

کہانیوں نے بچپن سے ہی ہمارے تخیل کی خوب دوڑیں لگوائی ہیں، جب بھی ہم کوئی کہانی سنتے یا پڑھتے اس کے لکھاری کے دیوانے ہو جاتے گویا لکھاری ہمارے بچپن کا عشق تھے، ہم سوچتے یہ اتنے زبردست لوگ کون ہوتے ہیں؟ جو اتنی پیاری باتیں کرتے ہیں اتنا سب کچھ جانتے ہیں، ہم جب چاہتے اپنے تخیل میں لکھاری بن جاتے اور یوں کبھی سمندر کی تہہ میں بنائے گئے سونے کے محل کی سیر کر آتے، کبھی جل پری بن جاتے۔

کبھی حقیقت میں کسی بات پر غصہ آتا یا دل جلتا اور ہمارے آنسو بہنے لگتے تو کہیں سے ایک پیاری سی پری آ کر ہمارے آنسو اپنے ہاتھوں میں لے لیتی اور کہتی کہ یہ دیکھو یہ کتنے قیمتی آنسو ہیں تم انہیں خوامخواہ ضائع کر رہے ہو۔ ہم پری کی ہتھیلی پر دیکھتے تو وہاں لعل اور یاقوت ہوتے۔ ہم حیران رہ جاتے اور بادشاہ سلامت بنتے ہوئے وہ لعل اور یاقوت پری کو دے دیتے، یوں پری ہمارے آنسو اور غم لے کر چلی جاتی اور ہم تازہ دم ہو جاتے۔

ارد گرد کا غیر ادبی ماحول دیکھ کر ہم مایوس ہوتے مگر ہماری تخیل کی بسائی ہوئی دنیا ہمیں پری کا روپ دے کر خوش کر دیتی۔ جب ہم پری بنتے تو اکثر کوقاف کا جن ہمیں بہت تنگ کرتا مگر ہمیں بھی پتہ چل گیا تھا کہ اس کی جان طوطے میں ہے ہم نے اس طوطے کو قید کر کے لال مندر میں دفن کر دیا تھا۔ ہم پری بن کر سب کی مدد کرتے اور اپنے ماتھے پر چاند اور ٹھوڑی پر تارہ دیکھتے جو نیکی کرنے کی وجہ سے بن جاتا ہے۔

کبھی جادوئی پلیٹ سے گمشدہ چیزوں کی تلاش کرتے۔ اڑن کھٹولے کی سیر تو سب سے زیادہ لطف دیتی۔ ہم سب دوستوں کو اڑن کھٹولے پر بٹھا کر بادلوں کی سیر کرواتے۔ ایک دن تو عمرو عیار کی زنبیل میں عمرو کو ہی بند کر دیا مگر عمرو کا وہ احسان مند جن آیا جسے عمرو نے بوتل سے آزاد کیا تھا اس نے ہم سے زنبیل چھین کر عمرو کو آزاد کیا اور طلسمی شکنجے سے ہمیں قید کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ڈرے تو بہت، مایوس نہیں ہوئے ہماری تخیلاتی دنیا بہت وسیع تھی۔

سمندر سے دل بھر گیا تو ہم نے جنگل کا رخ کیا، ٹارزن کے ساتھ مل کر ڈال ڈال گھومے، شیر کی سیر کی، جنگلیوں سے مقابلہ کیا ہاں مگر الو سے کبھی نہ جیت سکے۔ بادشاہ سلامت بن کر رعایا کی خوب خدمت کی، شہزادی بن کر مظلوموں کا ساتھ دیا، حاتم طائی بن کر خزانے لٹائے، ہوش سنبھالا تو انسپکٹر جمشید اور فریدی کے ساتھ مل کر جاسوسی بھی کی۔ مگر محمود کا چاقو کبھی نہ لے سکے۔

ایکسٹو اور عمران میں الجھتے الجھتے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، ڈھیروں کرداروں میں اپنے آپ کو ڈھالتے ڈھالتے جو ایک کردار ابھرا وہ نہایت سادہ دل اور نرم مزاج تھا۔ اسے لگتا وہ پیار محبت سے دنیا بدل سکتا ہے، اسے یقین تھا کہ کانٹے چن لو گے تو بس پھول رہ جائیں گے، وہ سوچتا اب بھی سادگی کی اہمیت ہے۔ سادہ دلی کو ترجیح دی جاتی ہے، دوسروں کا ہاتھ محبت سے تھام لینے سے نفرتیں سلگ جاتی ہیں، خلوص کی جیت ہوتی ہے، ماں سمجھاتی بیٹا دنیا کا دستور لینے اور دینے کے معاملے میں الگ الگ ہے۔

دنیا تم سے محبت، خلوص، پیار، پیسہ، ہتھیلی لال کر کے وصول کرے گی اور جب لوٹانے کا وقت آئے گا تو تمھیں لال آنکھیں دکھائے گی۔ اس سیکھ کے باوجود ہمارا تخیل ہمیں دنیا کو پھولوں سے بھرا باغ دکھاتا جس میں ہم محبتوں کے ایوارڈ وصول کرتے پھرتے مگر یہ تخیل اس وقت برے طرح ٹوٹا جب زندگی کی آنکھیں لال ہوئیں اور ہم نے ان میں خون دیکھا۔ بے اختیار دل چاہا کہ سمندر میں بنے محل میں جا کر روپوش ہو جائیں مگر اب کہاں سے لائیں وہ بچپن کے سنہری دن جب سنہری پری آ کر اپنے ساتھ پرستان لے جاتی تھی اور سارے دکھ درد دور ہو جاتے تھے۔

Check Also

Qismat Par Inhesar

By Asfar Ayub Khan