Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khadija Bari/
  4. Izzat Ki Aag

Izzat Ki Aag

عزت کی آگ

میں چڑیا کی بات دوست کے گھر پکی کر رہا ہوں، جیسے ہی چڑیا کے کانوں میں ابا کی آواز پڑی چڑیا کو گیت سنائی دینے لگے۔ جب ابا نے چڑیا کی شادی کا ذکر گھر میں کیا تو سب ہی چونک گئے اماں تو اچھل ہی گئیں۔

کہاں بیاہنے کا سوچ رہے ہو اس نگوڑی کو، اپنا آپ تو اس سے سنبھلتا نہیں، شادی جیسی ذمہ داری کہاں نبھائے گی۔

کیوں نہیں نبھا سکتی تمہارے گھر کا کام کرتی ہے، صفائی کرتی ہے، برتن مانجھتی ہے، کپڑے دھوتی ہے تو شادی کے بعد بھی یہ سب کر لے گی، کیا تم چاہتی ہو تمہاری ہی نوکری کرتی رہے ہمیشہ۔

استغفراللہ، ظفر کے ابا کیا شادی کام سے ہی نبھتی ہے بس، عقل بھی ضروری ہے۔

میں کچھ نہیں جانتا، اپنے فرض سے فارغ ہونا چاہتا ہوں۔

مگر انجان لوگوں میں اپنی بیٹی جس میں عقل بھی کم ہو یوں بغیر سوچے سمجھے رشتہ جوڑنا ٹھیک نہیں۔

تمہیں میں پاگل، بے وقوف لگتا ہوں؟ ہمارے بڑوں سے سو سالہ پرانے تعلقات چلے آرہے ہیں ان لوگوں سے، جانتے ہیں وہ ہماری بیٹی سیدھی سادھی ہے اور وہ بخوشی رشتہ کرنے پر تیار ہیں۔

ہائے ضرور کوئی مسئلہ ہوگا لڑکے میں۔ ورنہ اچھی خاصی لڑکیوں کو کوئی نہیں پوچھتا انہیں میری سیدھی سادی بیٹی ہی کیوں نظر آئی؟

بس تم میں یہی تو خرابی ہے اچھا تو سوچنا ہی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں ہمارے تعلقات مضبوط ہوں۔ انہیں ہماری چڑیا جیس معصوم سیرت لڑکی چاہیئے۔ آج کل کی ماڈرن پڑھی لکھی لڑکیوں میں انہیں دلچسپی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں بس سادہ سی ہو ہمارے ماحول میں رچ بس جائے۔

پھر بھی رشتہ پکا کرنے سے پہلے سوچ لینا۔

میں نے تو سوچ بھی لیا ہے اور فیصلہ بھی کر لیا ہے نہ اس پر کسی رائے کی ضرورت ہے نہ کسی سے مشورے کی۔ میری اولاد ہے اور میرا پورا حق ہے جو چاہے فیصلہ کروں، تمہاری تسلی کے لئے شاہ جہاں اور یونس کو بھیج دوں گا وہ لڑکے کو دیکھ آئیں گے۔

انجان شہر، انجان لوگ اور کم عقل کی بچی ان کا تو دل ہول رہا تھا مگر میاں کی ضد کی آگے ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔

بڑے دونوں بیٹے ناراض ہوئے مگر بیٹیاں خوش تھیں کہ بھاوجوں کے کام سے جان چھٹے گی اپنے گھر کی ہوگی۔ شاہ جہاں اور یونس لڑکا دیکھ کر آگئے تھے سوائے نظر کی کمزوری کے کوئی عیب نہ تھا۔ اماں کچھ مطمئن ہوئیں کہ یونس کی کہی بات پر انہیں اعتبار تھا۔

آہا اب میری بھی شادی ہوگی، پھر کوئی نہیں کہے گا یہ کم عقل ہے، پاگل ہے چھوٹے دماغ کی ہے۔ میرا شادی کا جوڑا بھی آئے گا میں بھی دلہن بنوں گی، میرا دلہا۔۔ اور دلہا کا سوچ کر وہ شرما گئی۔ چڑیا کا خواب پورا ہوگیا تھا وہ دلہن بنی بیٹھی تھی بارات کا انتظار تھا آخر وہ بھی آگئی بچوں نے بارات آنے پر خوب شور مچایا، بس جلدی سے نکاح کروا دو کھانا کھول دو۔ دوسرے شہر کا معاملہ ہے ذرا جلدی فارغ ہو جائیں تو بہتر رہے گا۔

دلہا گر گیا، ہاہاہا دلہا گر گیا۔ بچے دلہا کے گرنے پر خوب ہنس رہے تھے۔ نکاح کے بعد دلہے میاں گلے ملتے ہوئے توازن برقرار نہ رکھ سکے اور گر گئے۔

اسکو دھیان سے پکڑ کر اٹھاؤ۔

ہاتھ تھام کے رکھنا۔

دلہا کے گرنے کا شور سن کر سب آگئے، ہائے دلہا نابینا ہے۔ دلہا تو اندھا ہے، دلہا کو نظر نہیں آتا۔ مختلف آوازیں ابھر رہیں تھیں۔

دادو دادو دلہا کو نظر نہیں آتا سب کہہ رہے ہیں وہ اندھے ہیں۔

ہائے کیا بول رہے ہو ناس پیٹوں۔ کوئی سن لے گا لڑکے والوں کے کانوں میں پڑے گا تو الٹے قدموں لوٹ جائیں گے عزت خاک میں مل جائے گی۔ زبانوں کو ذرا قابو رکھو۔

نہیں دادو ہم صحیح کہہ رہے ہیں وہ گر بھی گئے تھے ان کو لوگوں نے مل کر اٹھایا۔ یہ سن کر دل تھام کر بیٹھتی چلی گئیں اس شدت کا درد پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ہسپتال لے جایا گیا شدید ہارٹ اٹیک تھا۔

چڑیا کی زندگی کا فیصلہ اہم مرحلے میں داخل ہوگیا تھا۔

رخصتی سے پہلے پتہ چل گیا ہے بارات لوٹا دیں انکار کر دیں۔

نہیں نہیں عزت کا سوال ہے۔

بارات کو واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔

اب تو نکاح ہوگیا ہے ےیہ اس کا نصیب اگر شادی کے بعد کسی حادثے میں ایسا ہوتا ہم کیا کر لیتے۔

دلہا کو دلہن کے برابر لے جا کر بٹھا دیا گیا دلہن اس حادثے سے بےخبر اپنے نصیب پر نازاں تھی اور ماں ہسپتال میں غافل پڑی تھی۔ قرآن کے سائے میں چڑیا کو رخصت کر دیا گیا۔ جب دلہا کا ہاتھ اسے ٹٹولتا ہوا اس تک پہنچا تو اسے اپنے نصیب کے پھوٹنے کا اندازہ ہوا وہ اتنا روئی کہ اگر اسکو وقت سے پہلے اپنی موت کی خبر ہو جاتی تو وہ شاید اتنا نہ روتی۔ ماں کو بھی روگ لگ گیا تھا بستر سے آ لگی تھی۔

مگر آدھے دماغ والی کا شاید دل بھی آدھا تھا اسنے اپنے نصیب کے لکھے کو قبول کر لیا تھا مہینے بعد وہ گھر رہنے آئی تو اسکو مطمئن دیکھ کر اماں کی بھی کچھ تسلی ہوئی مگر زندگی اطمینان کا نہیں امتحان کا نام ہے۔

امی وہ لوگ میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں، کل انکے بھائی نے میرا دوپٹہ کھینچا، انہوں نے مجھے آ کر چھڑانا چاہا تو انہیں بھی دھکا دے دیا، شور سن کر ساس آئیں تو وہ بھاگا۔ یہ سن کر ان کا دل دھڑک کر رہ گیا۔

ان کی بیٹی کی عزت کو شدید خطرات لاحق ہوگئے کہ میاں نابینا تھا اس کی کون دیکھ ریکھ کرتا غلیظ نظروں سے کون بچاتا۔ وہاں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ دوزخ میں چھوڑنے سے بہتر ہے واپس لے آیا جائے، مہینے بعد واپس لے کر آئے تو حاملہ ہو چکی تھی۔ اس پر بھی مختلف چہ مگوئیاں جاری تھیں۔ ارد گرد والوں کو یہ تکلیف کہ اب مصیبت ڈبل ہوگئی۔ اب رہ رہ کر رخصتی کے غلط فیصلے کا احساس ہو رہا تھا۔

طلاق نہ دی گئی نہ دلوائی گئی کہ کورٹ کچہری میں"عزت" کہاں رولیں۔ بیٹا بھی ہوگیا تھا اب پھر سے میکے والوں کی خدمتیں شروع ہوگئی تھیں۔ زندگی دکھوں کے ہچکولوں کے ساتھ رواں دواں تھی۔ مدت بعد ابا بھی دنیا سے رخصت ہو گئے تو بہنوں کو خیال آیا کہ بھابھیوں کی خدمت کرتی ہے اس سے اچھا نابینا شوہر کی کر لے۔ سب کی مخالفت لے کے بہنوں نے سسرال روانہ کر دیا۔ بھائیوں نے اس فیصلے پر تعلق ختم کر لیا کہ ہماری مرضی کے خلاف بھیجا ہے اور اماں نے چپ سادھ لی۔

مگر سسرال میں ان دو افراد کو برداشت نہ کیا گیا سب کٹیلی نگاہوں سے اسے دیکھتے، میاں کا خود برا حال تھا ان کا کیا خیال رکھتا سارا دن ایک کونے میں پڑا ریڈیو سنتا رہتا۔ اسے کسی سے غرض نہ تھی، یہ دھتکار اسے برداشت نہ ہوئی اور وہ پھر میکے واپس آ گئی تھی۔ مگر اب بھائی بھاوج رکھنے پر تیار نہ تھے کہ ہماری مرضی کے خلاف کیوں گئی تھی۔

آدھی عقل والی کا پوری عقل والوں نے تماشا بنا کر رکھ دیا تھا۔

اس نے اپنے سامان سے شادی کا سرخ جوڑا نکالا اور قبرستان پہنچ کر باپ کی قبر پر ڈالا، اس جوڑے سے جان چھڑا کر اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ یہ سوچ کر ایدھی سنٹر کا رخ کیا کہ شاید اب وہ کسی کی خاطر مزید عزت کی آگ میں جھلسنے سے بچ جائے۔

Check Also

AI Tools Aur Talaba

By Mubashir Ali Zaidi