Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khadeeja Amjad
  4. Jang e Badar

Jang e Badar

جنگ بدر

17 رمضان المبارک 2 ھجری میں یہ جنگ لڑی گئی تھی۔ اس دن کو یوم الفرقان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قرایش مکہ مسلمانوں کی مدینہ ہجرت سے خوش نہیں تھے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتے تھے۔ وہ کھبی مسلمانوں کے قافلوں پر ہملہ کرتے تھے اور جلا دیتے تھے۔ ایک مرتبہ شام سے ایک قافلہ مکہ کی طرف جا رہا تھا۔ اس میں ان کا بہت سا قیمتی سامان موجود تھا۔ حضرت محمد ﷺ نے اس قافلے کو راہ روکنے کا ارادہ کیا۔

ابو سفیان جان جو اس قافلے کا سردار تھا، مدد کے لئے اس نے مکہ کی طرف اپنے ایک قاصد بھیجا ابوجہل سے مدد مانگنے کے لیے ابوجہل ل فورا اور 1000 سپاہیوں کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوا بعد میں ابوجہل کو ابو سفیان کی طرف سے ایک اور پیغام ملا کہ انہیں مدد نہیں چاہیے تھی، کیونکہ وہ مسلمانوں سے بچ گئے تھے۔ لیکن ابو جہل نے مسلمانوں سے بدلہ لینا تھا تاکہ وہ ان کے قافلے پر مستقبل میں حملہ نہ کرے۔

جب حضور ﷺ کو اس بات کا پتہ چلا تو انھوں نے سب مسلمانوں کو اکھٹا کیا۔ مسلمان تعداد میں صرف 313 تھی۔ وہ بدر کی طرف روانہ ہوئے جو مدینہ سے 80 میل دور تھا۔ جب مسلمان وہاں پہنچے تو قریش مکہ پہلے ہی سے وہاں تھے، اور انہوں نے فائدہ مند جگہ چن لی تھی۔ جبکہ کہ مسلمانوں کو وہ جگہ ملی جہاں ریت تھی اور مسلمانوں اور ان کے جانوروں کے پیپر پھنس رہے تھے۔

حضور ﷺ نے اللہ تعالی سے دعا کی اور اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول کر لی اور بارش بھیجی اور اس کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے پانی بھی جمع ہوگیا تھا۔ حضور ﷺ نے ساری رات جاگ کر اللہ تعالی سے دعا کی اللہ تعالی ان کی مدد کرے، کیونکہ ان کی تعداد صرف 313 تھی۔ جبکہ قریش کی تعداد 1000 تھی۔ اللہ تعالی نے حضرت محمد ﷺ کی دعا قبول کی اور کہا " یاد کرو وہ موقع میرا جب قوم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔

جواب میں اس نے فرمایا میں تمھاری مدد کے لیے ایک ہزار فرشتے بیج رہا ہوں یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دیں ہے کہ تمہیں خوشنودی میری حاصل ہو ورنہ مدد جب بھی ہوتی ہے اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے پاس صرف 70-60 اونٹ تھے، دو تین گھوڑے اور قریش کے پاس 70 گھوڑے تھے اور بہت سارے ہتھیار۔ سب سے پہلے 3 جنگجو سامنے آئے دونوں فوج سے۔

مسلمانوں سے حضرت حمزہؓ نہ حضرت علیؓ اور حضرت عبید بن حارثؓ نہ آگے آئے۔ قریش سے عتبہ، شیبہ اور ولید آئے۔ حضرت علی اور حضرت حمزہ نے اپنے دشمن کو قتل کر دیا، لیکن حضرت عبید کی ٹانگ ان کے جسم سے جدا ہوگیی لڑتے وقت لیکن اپنے دشمن کو قتل کر دیا۔ تینوں دشمن قتل ہونے پر قریش مکہ بہت غصہ تھے، اور مسلمانوں کی طرف بھاگنے لگے آگے جب قریش مکہ کی فوج مسلمانوں کی طرف پہنچیں۔

تو حضور ﷺ نے مسلمانوں کو حوصلہ افزائی دینے کے لئے، ان پر مٹی پھینکی اور مٹی قریش کی آنکھوں میں چلی گئی، اس پر اللہ تعالی نے فرمایا "اے نبی ﷺ تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔ حضور ﷺ علم نے اپنے لوگوں کو بہت اچھی طرح سے سیٹ کیا اور اس کی وجہ سے قریش مکہ کے بہت سے آدمی مارے گئے، اس میں بہت سارے رہنما بھی تھے اور سارے قریش کے آدمی میں میدان جنگ سے فرار ہونے لگے۔

مسلمانوں کے ہاتھ میں بہت سارا مال غنیمت آیا، جو حضور ﷺ نے مسلمانوں کو اللہ کے حکم سے برابر تقسیم کیا۔ قریشی مکہ کے 70 لوگ مارے گئے، جبکہ مسلمانوں کے صرف 7 لوگ مارے گئے۔ اللہ نےحق کو حق اور باطل کو باطل کرکے دکھا دیا۔ اور باطل تو مٹ کر ہی رہتا ہے۔

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed