Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javeria Aslam
  4. Mera Jism Meri Marzi Ka Naara Ghair Islami Nahi

Mera Jism Meri Marzi Ka Naara Ghair Islami Nahi

میرا جسم میری مرضی کا نعرہ غیر اسلامی نہیں

میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو زیادہ تر لوگوں نے غیر اسلامی تصور کر لیا۔ پاکستان میں اس نعرے کو اتنا ہی سمجھا گیا جتنا کہ پاکستانی معاشرے میں عورت اور عورت کے حقوق کو سمجھا گیا۔ عورت کے جسم پر اس کی مرضی کو اسلام ہی نے تو تسلیم کیا ہے اور عورت کے واضح حقوق کا تعین کیا ہے۔

پاکستان میں عورت کیلئے اول تو حقوق ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں تو ان کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے کہ جب معاشی حالات سے تنگ عورت کو ایک جسم اور اپنے اندر اٹھا کر آفس جانا پڑتا ہے اور اسے میٹرنٹی چھٹیاں بالکل آخری ایام میں دی جاتی ہیں، ان کی خوراک کا مناسب خیال نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی زچگی کے دوران خاطر خواہ علاج معالجے کی سہولیات مہیا ہیں بلکہ بہت بڑی تعداد زچگی کے دوران جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔

بیٹے کی خواہش میں عورت کی جسمانی کمزوری کو نظر انداز کرتے ہوئے پے در پے بچوں کی پیدائش سے عورت نہ بھی مرے مگر جسمانی طور پر میرا جسم میرا مرضی کے بینر تلے کھڑے ہونے میں حق بجانب ضرور ہے۔ گھروں میں جسمانی تشدد کا شکار ہونے کے باوجود اس کو یہ معاشرہ طلاق لینے ہی نہیں دیتا اور اگر لے لے تو جینے نہیں دیتا۔ بھائی سے اگر جائیداد میں اپنا جایز حق بھی طلب کر لے تو بھائی پھر بھائی نہیں رہتا۔

صفائی ستھرائی سے لے کے حفظان صحت و علاج معالجے کی بہتر سہولتوں کی مفت دستیابی تک عورتیں لامحالہ غیرپیداوری کام کم کرتی ہیں یعنی گھر بار سنبھالنا، بچوں کی دیکھ ریکھ، تین وقت روزانہ بیس تیس روٹیاں توے پر ڈالنا اور روٹیوں کیساتھ اپنے جسم کو سینکنا، تینوں وقت سالن پکانا اور ایسے دیگر غیر پیداواری کام عورتوں کا بہت زیادہ وقت لیتے ہیں۔ یہاں تک رمضان کی افطاریاں بناتے بناتے اس کے جسم میں عبادت کی سکت بھی نہیں رہتی، اور رمضان جیسا مقدس مہینہ بھی ایک حسرت بن جاتا ہے۔

فطری طور پر نازک جسم والی دوسروں کے گھروں میں کام کرتی چھوٹی چھوٹی وہ معصوم بچیاں جن کے گڑیا سے کھیلنے کے دن ہوتے ہیں، ان کو ان کے گھروں سے دور انکے والدین سے الگ کر لیا جاتا ہے اور ان کو معمولی باتوں پر پیٹ پیٹ کر جان سے مار دیا جاتا ہے اور غریب والدین کو اطلاع تک نہیں دی جاتی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مسئلہ صرف معاشی ہے، نہیں یہ مسئلہ صرف معاشی نہیں ہے بلکہ معاشی، سماجی اور خاندانی ہے، جہاں سماج میں بیٹے جائیداد کے وارث اور بیٹیاں عزت کی وارث قرار دی جاتی ہیں اور عزت سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ والدین جہاں چاہیں جب چاہیں ان کا جسم کسی کے حوالے کر دیں اور جس انسان کے حوالے کریں، اگر وہ حیوان نکل آے تو سماج اور خاندان میں ناک اونچی رکھنے کیلئے اس بات کو ہر ممکن حد تک چھپایا اور والدین کی عزت کی رکھوالی اپنے جسم کی بلی چڑھا کر دی جائے پھر چاہے شوہر اور سسرال مارے، پیٹے یا پھر تیزاب سے جسم کو جلا کر راکھ ہی کیوں نہ کردے کیونکہ بیٹی کے زندہ جسم کی واپسی رسوائی مگر مردہ جسم معاشرے کی ہمدردی اور معافی کا باعث تو ہے۔

اسى طرح اگر عورت کے جسم میں لڑکی ہو اور اس نے پہلے بھی بیٹیاں پیدا کی ہوں تو یہ معاشرہ اسے اتنا کمزور کر دیتا ہے کہ وہ خود سے نظر نہیں ملا پاتی۔ محترمہ مریم نواز جیسی مشہور سیاست دان اور مریم اورنگزیب جیسی سیاسی اور پروقار خواتین تک کے جسم مردوں کی دھکم پیل بلکہ باقاعدہ حملے سے محفوظ نہیں اور محترمہ شیریں مزاری صاحبہ کے جسم کو ٹریکٹر ٹرالہ کہہ کر قومی اسمبلی کے فلور پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا تو پھر ہم ان قانون ساز اداروں سے میرا جسم میری مرضی جیسے نعرے کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔

عورتوں کے حقوق بشمول حق رائے دہی کے حصول کی خاطر سب سے پہلا جلوس یعنی مارچ، سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ کے ایماء پر 28 فروری 1909 کو امریکہ میں نکلا تھا۔ پھر اگست 1910 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہوئی سوشلسٹ خواتین کی بین الاقوامی کانفرنس میں 8 مارچ کو عورتوں کے حقوق کے دن کے طور پر منائے جانے کی تجویز منظور کی گئی تھی۔

8 مارچ 1917 کو سلطنت روس کے ان دنوں کے دارالحکومت پیتروگراد یعنی آج کے سینٹ پیٹرز برگ میں، ٹیکسٹائل کی صنعت میں مزدوری کرنے والی خواتین نے اتنا بڑا جلوس نکالا تھا جس سے پورا شہر بھر گیا تھا۔ اسی کی بدولت روس کا اکتوبر انقلاب برپا ہوا تھا۔ عورتیں پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں، کام بھی مناسب نہیں ملتا تھا یعنی ویسے ہی صورت احوال تھی جس سے آج بھی پاکستان میں 60 سے 70 فیصد عورتیں دوچار ہیں۔

عورتیں کسی بھی ملک کی آبادی کا نصف ہوتی ہیں اگر ان میں سے بیشتر کو پیداواری عمل میں شریک ہونے کا موقع ہی میسر نہ آئے تو وہ ملک معاشی طور پر آگے بڑھنے سے رک جاتا ہے۔ اور اگر عورت کے قدرتی طور پر نازک جسم کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکی نشوونما اور حفاظت کے لیے قوانین محض اس نعرے کو فحش قرار دے کر نظر انداز کیے گئے تو یہ خواتین کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہوگی۔ اور یہ عورت مارچ معیار زندگی بہتر ہونے سے بہتر طور پر تعلیم یافتہ اور باروزگار افراد پر مشتمل معاشرہ ہونے تک جاری رہیں گے۔

Check Also

Nange Paun Aur Shareeat Ka Nifaz

By Kiran Arzoo Nadeem