Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Javeria Aslam/
  4. Guru Totay Ka Qaidi Totay Ko Pegham

Guru Totay Ka Qaidi Totay Ko Pegham

گرو طوطے کا قیدی طوطے کو پیغام

ہم جس عہد میں زندہ ہیں اس کو ڈیجیٹل ایج کہا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہماری یوتھ کی علم و فن اور معلومات سے رسائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ان کو ان کی عمر یا وقت سے بھی پہلے چیزیں پتہ چلنے لگی ہیں۔ اس بات کو کلی طور پہ رد بھی نہیں کیا جا سکتا مگر اس سب میں آپ تجربہ، مشاہدہ اور وقت کے گزرنے کیساتھ ادراک کا جو لیول انسان حاصل کر لیتا ہے اسکی اہمیت سے انکار بھی نہیں کر سکتے۔

یہ بات زندگی کے ہر شعبے پہ صادق آتی ہے خاص طور پر ہمارے سیاسی نظام پر۔ استاد محترم جناب وجاہت مسعود صاحب اپنے حالیہ کالم "مرید پور کا پیر اور جرمن چانسلر کی کہانی" میں لکھتے ہیں"عالمی جنگ کے بعد 73 سالہ کانریڈ ایڈنائر (Konrad Adenauer) 15 ستمبر 1949ءکو جرمنی کا پہلا چانسلر منتخب ہوا۔ ایڈنائر نے نازی اقتدار میں گیارہ برس قید کاٹی تھی۔ اس کا زندہ بچ رہنا معجزے سے کم نہیں تھا۔ اگلے چودہ برس میں ایڈنائر نے جرمن معیشت کو صحیح سمت دی نیز جمہوری اقدار کو فروغ دے کر جرمنی کو اقوام عالم میں قابل احترام مقام دلایا۔ 15 اکتوبر 1963ءکو 87 برس کی عمر میں ایڈنائر نے چانسلر کے عہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تو پارلیمنٹ میں ان کے شدید ترین سیاسی مخالف نے الوداعی تقریر کرتے ہوئے کہا۔ چانسلر ایڈنائر آپ نے مئی 1954ء میں ناٹو کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو میں نے آپ کی مخالفت کی۔ آپ درست تھے اور میں غلط۔ 1957ء میں آپ نے یورپین اکنامک کمیونٹی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو میں نے مخالفت کی۔ آپ درست تھے اور میں غلط۔ جنوری 1963ء میں آپ نے فرانس سے دوستی کا معاہدہ کیا تو میں نے مخالفت کی۔ آپ درست تھے اور میں غلط۔ بوڑھے چانسلر ایڈنائر نے اپنے مخصوص انکسار سے صرف یہ جواب دیا میرے دوست، مجھ میں اور آپ میں کم و بیش اتفاق پایا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ درست نتیجے تک پہنچنے میں کچھ تاخیر کر دیتے ہیں"۔

ترقی کی راہ پہ گامزن یہ قومیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے ان کو سدھارتی ہیں اور کامیابیوں کے در وا کرتی چلی جاتی ہیں۔ میں ان سیاسی پچھتاووں اور سیاسی غلطیوں کے اعتراف سے بھی تھوڑا سا اور آگے بڑھنا چاہتی ہوں کہ ہمارے لئے صرف اب محض اعتراف بھی کافی نہیں رہے بلکہ سیاست کے تجربہ کاروں سے بقا کا پیغام صحیح معنوں میں سیکھنا بھی ہماری ترقی کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔

ہمارا ہر وزیراعظم وقت کا مجرم قرار پاتا ہے اور وہ مسند اقتدار سے قید خانے ہی پہنچایا جاتا ہے۔ اس وقت بھی ہمارے سابق وزیراعظم قید میں ہیں اور قیدی نمبر 804 کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ آج کے قیدی نمبر 804 کو اس قید سے چھٹکارے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تو ان کو سابقہ سیاسی قیدیوں سے اس طوطے قیدی کی طرح سے مدد مانگنے میں دیر نہیں کرنی چاہئیے جس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک آدمی نے طوطا رکھا ہوا تھا۔ طوطا باتیں کرتا تھا۔ اس آدمی نے کہا کہ میں دور کے سفر پر جارہا ہوں وہاں سے کوئی چیز منگوانی ہو تو بتا۔

طوطے نے کہا کہ وہاں تو طوطوں کا جنگل ہے وہاں ہمارے گرو رہتے ہیں ہمارے ساتھی رہتے ہیں وہاں جانا اور گرو طوطے کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ ایک غلام طوطا پنجرے میں رہنے والا، غلامی میں پابند قفس، آپ کے آزاد طوطوں کو سلام کہتا ہے۔ سوداگر وہاں پہنچا اور اس نے جا کر یہ پیغام دیا۔ اچانک جنگل میں پھڑ پھڑ کی آواز آئی ایک طوطا گرا دوسرا گرا اور پھر سارا جنگل ہی مر گیا۔

سوداگر بڑا حیران کہ یہ پیغام کیا تھا قیامت ہی تھی۔ اداس ہوکے چلا آیا۔ واپسی پر طوطے نے پوچھا کہ کیا میرا سلام دیا تھا؟ اس نے کہا کہ بڑی اداس بات ہے، سلام تو میں نے پہنچا دیا مگر تیرا گرو مر گیا اور سارے چیلے بھی مر گئے۔

اتنا سننا تھا کہ وہ طوطا بھی مر گیا۔ سوداگر کو بڑا افسوس ہوا۔ اس نے مردہ طوطے کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ طوطا فوراً اڑ گیا اور شاخ پر بیٹھ گیا۔ اس نے پوچھا یہ کیا؟ طوطے نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میں نے اپنے گرو طوطے سے پوچھا تھا کہ پنجرے سے بچنے کا طریقہ بتا، اس نے کہا کہ مرنے سے پہلے مر جا۔

یہ پیغام ایک ایسی صورتحال میں پہنچایا گیا جبکہ قیدی طوطے کے پاس سوائے یاس کے کچھ نہیں تھا اور بچنے کا کوئی وسیلہ موجود نہیں تھا مگر اس نے اپنی عقل اور تدبیر سے صیاد ہی کو ذریعہ بنا کر اپنے گرو تک رسائی حاصل کر لی اور پھر اس کی نصیحت اور تجربے پر عمل کرکے قید سے چھٹکارہ پا لیا مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ نہ صرف ہمارا قیدی نمبر 804 اس سیاسی شعور سے محروم ہے بلکہ وزارتِ عظمیٰ نامی پنجرے میں بیٹھنے والا ہر طوطا نہ صرف اپنی قید سے غافل ہو جاتا ہے بلکہ اپنے سیاسی چمن کے پنچھیوں کی بصیرت سے مستفید ہونے کی بجائے ان سے سیاسی انتقام ہی کو اپنی بقا سمجھ بیٹھتا ہے اور صیاد اپنا جال مزید پھیلاتا جاتا ہے۔

Check Also

Jan Bohat Sharminda Hain

By Cyma Malik