Raza e Elahi Ba Zarea Khidmat Insaniyat
رضاء الہی بذریعہ خدمت انسانیت
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
جون کی گرمی ریگستانی علاقہ گرم ہوا اور جب درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ کو چھو رہا تھا اور یہ بیاسی سال کا بوڑھا ایک درویش جس کی بینائی تقریباََ ختم ہو چکی تھی اور بیماری اور کمزوری سے چلنے پھرنے میں شدید دقت محسوس ہوتی تھی گھر سے دفتر بھی سہارے کے بغیر نہ پہنچ پاتا تھا۔ گرمی کی وجہ سے ایک بنیان اور پاجامہ پہنے اپنے دفتر میں موجود تھا یہ کوئی ملازم یا عام آدمی نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان سوشل ایسوسی ایشن پاکستان کے تاحیات صدر اور سوشل سکریٹری ٹو امیر آف بہاولپور لفٹیننٹ (ر) محمد ﷺ ایاز خان تھے۔
قیام پاکستان کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش تھیں اس ہی لیے جنگ آزادی پاکستان میں ہندوں نے ان کے بیوی بچوں کو شہید اور گھر کو آگ لگا دی تھی بقاء پاکستان کے لیے جنگ کشمیر 1948ء جنگ ستمبر 1965ء اور جنگ مشرقی پاکستان 1971ء میں عملی طور پر حصہ لیا اور بہادری کی بے مثال داستانیں رقم کیں اور بے شمار جنگی اعزازت سے نوازے گئے۔ ان ہی کی سفارش پر ان کی زیر کمان بہادری سے لڑتے ہوئے نائیک سیف علی جنجوعہ شہید کو نشان حیدر ملا۔ ان کی فوجی خدمات اور بہادری کی داستانیں کشمیر سے جیسور تک پھیلی ہو ئی ہیں ہندستان میں جنگی قید کے دوران ان کی استقامت اور دلیری کی داستان کسی ایک مضموں میں نہیں سما سکتیں اس کے لیے الگ ایک پوری کتاب درکار ہے۔
فوجی خدمات کے بعد آپ زندگی کے آخری لمحے تک خدمت انسانیت کا عزم لیے لوگوں کی مشکلات کم کرنے کی کوشش کو اپنی زندگی کا مشن سمجھتے تھے اس لیے پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کی سربراہی کا بیڑہ اُٹھایا جو قائداعظم اور نواب بہادر یار جنگ کی سر پرستی میں پاکستان کے قیام سے قبل سید یاسر حسین جعفری مر حوم نے قائم کی تھی جو ان کے دیرینہ دوست بھی تھے آپ نے صدارت سنبھالتے ہی اس تنظیم کو پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر ممالک میں پھیلا کربام عروج پر پہنچا دیا۔
اس کی برانچیں اور ممبران پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی موجود تھے جو بے لوث بلا کسی چندے اور عطیہ کے اپنی مدد آپ کے تحت ان کی رہنمائی میں خدمت انسانیت کا فریضہ ادا کر رہے تھے۔ جونہی وہ اپنے دفتر پہنچتے لوگ بھی پہنچ جاتے جو زیادہ تر غریب، محتاج، نادار، معذور ہوتے جن کے مسائل اور انکا حل صرف ان کے ہی پاس تھاوہ ان لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا بے پناہ تجربہ رکھتے تھے وہ پاکستان بھر سے آےُ ہوئے کارکنوں کے خطوط کا جواب دیتے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے وہ انہیں ایسے فلاحی کاموں کی ترغیب دیتے جس کے انجام دینے سے انہیں کو ئی مالی بوجھ برداشت نہ کر نا پڑے۔
ہر شخص اپنے اپنے شعبہ زندگی میں وہ کام کرے جس سے دوسروں کی مدد اور خدمت ہوسکے اور اس کو اخرجات بھی نہ کرنے پڑیں وہ راستے سے کانٹے اور پتھر ہٹانے کو بھی انسانیت کی خدمت قرار دیتے تھے گلی محلے کی صفائی اور اندھیری رات میں روشنی کرنے کو بھی عبادت سمجھتے تھے اور پھر پاکستان بھر میں ان فلاحی کاموں کے اعتراف اور حوصلہ افزائی کے لیے تعریفی اسناد، میڈلز اور شیلڈسالانہ کانفرنس منعقد کرا کر انہیں کسی بڑی اور قابل احترام شخصیت سے دلاتے تا کہ اس کا جذبہ مزید بڑھے اسطرح وہ اپنی پوری پنشن کے ساتھ ساتھ ہماری آمدنی کا بھی ایک حصہ ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کر دیتے تھے۔
مجھے ان کا بیٹا ہونے کا فخر تمام عمر رہا۔ ان کی گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر میں انہیں اسقدر مشقت سے روکتا تھا۔ ایک مرتبہ 9 جون کو انکی سالگرہ تھی تو کہنے لگے آؤ تمہیں ایک کہانی سناوں۔ وہ کہانی مجھے ہمیشہ یاد رہی اور آج ان کی 101 ویں سالگرہ پر میں اپنے بچوں، ان سے محبت کرنے والوں اورنئی نسل کو سنانا چاہتا ہوں۔
ایک گاوں میں ایک چڑیا اور گھوڑے کی بڑی دوستی تھی چڑیا سارے دن گھوڑے کی پیٹھ پر سوار اپنی پیاری پیاری بولی سے اسے نغمے سناتی اور گھوڑا اسے اپنی پیٹھ پر سورا کرکے گاوں کی سیر کراتا تھا ایک دفعہ اتفاقاََ گاوں کو آگ لگ گئی لوگوں کے ساتھ ساتھ یہ دونوں دوست بھی پریشان ہوئے جب تمام گاؤں آگ بجھانے کی کوشش کر رہا تھا تو چڑیا بھی دوڑی آئی اور اپنی ننھی سی چونچ میں پانی بھر بھر کر آگ بجھانے لگی مگر گھوڑا ادھر ادھر دوڑتا رہا کچھ نہ کر سکا۔ چڑیا جاتی اور اپنی چونچ میں ایک قطرہ پانی لا لا کر آگ بجھانے کی کوشش کرتی رہی لیکن سب ناکام ہوا اور شام تک گاوں جل کر راکھ ہوگیا۔ چڑیا تھکی ہاری اور افسردہ بیٹھی تھی کہ گھوڑے نے کہا بہن تو نے سارے دن کوشش کی مگر بھلا تیرے چند قطروں سے اتنی بڑی آگ کیسے بجھ سکتی تھی ناحق اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور اب تھکن سے چور بے حال ہو چکی ہو!
چڑیا کی آنکھ میں آنسو آگئے اور بولی میرے دوست میں جانتی تھی کہ میرے ننھے قطروں اور چند بوندوں سے آگ نہیں بجھ سکتی مگر جب خدا کے حضور پیش ہوں گے تو میں کہہ سکوں گی کہ میں نے آگ بجھانے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی پوری کوشش کی اور جب آگ بجھانے والوں کے نام لیے جائیں گے تو میرا نام بھی ان میں شامل ہوگا۔ ضروری نہیں کہ ہم ہر اچھے کام میں کامیاب ہوں مگر کوشش کرکے نیک کام کا حصہ بننا بے حد ضروری ہے اللہ صرف ہماری نیت اور کوشش ہی دیکھتا ہے کامیابی یا ناکامی نہیں! پھر بولے میری یہ ساری زندگی کی شب و روز کوشش دکھی انسانیت کے لیے اس معمولی چڑیا کے چند قطروں سے زیادہ نہیں ہےمگر دکھی انسانیت کے لیے جدوجہد کا ذکر ہوگا میرا نام دنیا میں بھلائی اور خدمت انسانیت کی فہرست میں ضرور شامل ہوگا۔ اللہ نیت کے حال بہتر جانتا ہے اور میرے نزدیک رضا الہی کے حصول کا سب سے بہتر طریقہ خدمت انسانیت میں پو شیدہ ہے۔ انسانیت کی خدمت میں دکھاو اور شہرت کی خواہش آپکی نیکی ضائع کر دیتی ہے۔
یہی ہے عبادت یہی دین وایماں
کہ کام آے دنیا میں انساں کے انساں
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو کچھ بننا چاہتے ہیں اور نام کمانے کی خواہش رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی جستجو میں آپ کچھ بن جائیں گے لیکن وہ جو کچھ بننا اور نام کمانا چاہتے ہیں وہ اسی سراب کا پیچھا کرتے کرتے رہ جائیں گے اور کچھ حاصل نہ کر پائیں گے کیونکہ اللہ ہماری نیت کا حال خوب جانتا ہے۔ پھر کہنے لگے میں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں اس معمولی چڑیا جیسا ہی بن کر زندگی گزار دوں کچھ بننا اور نام یا مال کمانا میرا مقصد حیات نہیں ہے۔
جب میں اس دنیا سے اپنے رب کے پاس جاوں تو کوئی جائداد، مال، ودولت کا حساب میرے ساتھ نہ ہو بلکہ میری پہچان صرف خدا کے اس بندے کی ہو جو دنیا میں بھلائی اور نیکی کی نیت سے انسانیت کی خدمت کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی پیروی اور محبت اس کا اعزازہو! وہ فرماتے تھے انسانیت کی خدمت ہر شخص ہر وقت ہر جگہ اور ہر طرح کر سکتا ہے یہ وہ نیک عمل ہے جس کے لیے کسی تیاری یا پروگرام کی ضرورت نہیں ہوتی۔
کبھی کبھی انسان کو سکون کے لیے چند ہمدردی کے لفظوں کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے لفظ اسکے لیے شفا بن جاتے ہیں یہاں تک کے ہمارا مسکرانا بھی ہمارے دین میں صدقہ شمار ہوتا ہے۔ دکھی انسان کی فلاح، اچھائی اور بھلائی کے لیے پڑھنا چاہیے اور اسی کے لیے لکھنا چاہیے وگرنہ کم از کم بھلائی کے سوچنا بھی خدمت انسانیت ہے۔ وہ مالداروں اور مخیرحضرات سے کہتے تھے سکون چاہتے ہو مکانوں، دوکانوں، اور زمیں جائداد پر نہیں دکھی انسان پر خرچ کرو۔
بلا لالچ انسانی خدمت اور انسانیت کی تکمیل کی منزل پانے کے لیے اپنے جذبات اور خواہشات کو پس پشت ڈال کر دوسروں کو سکھ پہنچانا ہی اصل خوشی ہوتی ہے۔ کسی بھی انسان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کے دل میں خلق خدا کے لیے کس قدر درد موجود ہے۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں۔
طریقت بجز خدمت خلق نیست
بہ تسبیح و سجادہ و دلق نیست
(یعنی طریقت خدمت خلق کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ تسبیح اور سجادہ (مصلیٰ)اور گدڑی میں نہیں ہے) لفٹیننٹ (ر) محمد ایاز خان مرحوم آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن پاکستان سو شل ایسوسی ایشن پاکستان اور ان کے قائم کردہ بے شمار فلاحی ادارے اور ان کے پیرو کار آج بھی ان کا خدمت خلق کا نیک مشن آج جاری رکھے ہوے ہیں۔ کہتے ہیں درویش کی پہچان یہ ہے کہ وہ خود بھی پرسکون ہوتا ہے اور اس کی قربت میں دوسرے انسانوں کو بھی سکون ملتا ہے۔
قناعت، منکسرالمزاجی، عذاب و ثواب سے بالاتر، من کا سکون، خدمت خلق کا جذبہ، موت کے خوف سے آزاد یہی تو درویشی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ مرنے کے بعد مجھے قبر میں نہیں لوگوں کے دلوں میں ڈھونڈنا میں ضرور مل جاو گا۔ اللہ، اس کے رسول اور اسکی مخلوق سے محبت کرنے والے کبھی مرتے نہیں وہ تو اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ ان کے مرشد حضرت خواجہ حسن نظامیؒ دہلوی کے بقول "ایاز" پیدا ہی جذبہ خدمت لیکر ہوا تھا۔
ان کی زندگی کا یہ سفر 9جون 1920ء سے شروع ہوا اور 17 مارچ 2006ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے مگر لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں کیونکہ ان کا سماجی مشن جاری ہے ان کی قیام پاکستان کے لیے جدو جہد اور قربانیاں لازوال ہیں اور انکی شجاعت و بہادری کے فوجی کارنامے پاکستان کی تاریخ کا سنہری باب بن چکے ہیں۔
ان کے ذاتی دوستوں میں نواب سجاد علی خان نواب آف کرنال، لیاقت علی خان شہید، سردار ابراہیم خان صدر آزاد کشمیر، سردار عبدلقیوم خان، حکیم محمد سعید دہلوی شہید، سیف علی جنجوعہ شہید نشان حیدر، اشفاق احمد خان مرحوم، جنرل محمد افتخار خان شہید، جنرل محمد اعظم خان مرحوم جنرل یعقوب علی خان مرحوم، جنرل سوار خان مرحوم، جنرل عتیق الرحمان مرحوم، وفاقی تاحیات وزیر محمود علی مرحوم اور ان جیسی بے شمار عظیم ہستیاں شامل تھیں ان سب کے بارے میں باری باری ایک الگ مضموں لکھوں گا۔
فوج کے علاوہ پاکستان کے لیے ان کے نمائیاں سماجی کارنامے پاکستان میں سوشل ویلفیر کے محکمے کا قیام، پاکستان سیرت کانفرنس کا انعقاد، بہاولپور میں پہلے بیت المال کا قیام، پاکستان ٹی بی ایسوسی ایشن کا قیام، صادق دوست اکیڈمی کا قیام اور یوم صادق اور اس موقع پر مقامی تعطیل کی منظوری، پاکستان میں آرٹس کونسل کاقیام، اور ایسی ہی بے شمار خدمات شامل ہیں۔ ان کی دینی اور روحانی خدمات کا ایک الگ باب ہے۔ آج 9 جون کو صرف ان کی 102 ویں یوم پیدائش پر انکو اور انکی فوجی، سماجی اور دینی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا مقصود ہے۔
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا