Khubsurat Cheez Khatarnak Bhi To Hoti Hai?
خوبصورت چیز خطرناک بھی تو ہوتی ہے؟
چند دن قبل میرے محترم دوست مدحت کامل صاحب جو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں اور ایک بڑے ماہر زراعت کے طور پر جانے جاتے ہیں نے اپنے فارم ہاوس پر مجھے اور میری فیملی کو مدعو کیا اور ہمارے لیے بڑا اہتمام بھی کیا۔ بچوں کو دیہات دیکھنے کا شوق تھا وہ بھی ہمراہ تھے۔ ان کا فارم ہاوس یقیناََ قابل دید ہے اور اس موقعہ پر ان کی مہمان نوازی کو ان کی ماہرانہ اور بے ساختہ گفتگو نے اسے مزید خوبصورت بنادیا۔
مجھے ایک پڑھے لکھے اور جدید طرز زراعت کے حامل زمیندار کی شاندار کارکردگی دیکھنے کا بڑے عرصہ بعد موقع ملا۔ انہوں نے زراعت کے ساتھ ساتھ پھلواری اور خوبصورت پلاٹوں کے ساتھ، ڈیری فارم، کیٹل فارم، مرغی فارم، گوٹھ فارم اور بطخوں کے لیے چھوٹا سا تالاب بھی بنوایا ہوا ہے اور ان سب جانوروں کو قدرتی ماحول میسر ہے۔
ٹیوب ویل کے ساتھ ساتھ پکے کھالے اور آب پاشی کا بہترین انتظام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ان کے بچے کو پہلوانی کا شوق ہے اس لیے ایک اکھاڑہ بھی فارم ہاوس میں دیکھنے کو ملا۔ آم اور کینو کے باغات کے ساتھ انہیں میڈیکل پلانٹس کا بھی بہت شوق ہے۔ سونجنا، اسبغول، تل، اور ناجانے کون کون سے پودے کاشت کرنا ان کا شوق ہے مگر ان کا شکوہ ہے کہ ان کی مارکیٹنگ بہت مشکل ہے اور ان کی مناسب قیمت نہیں مل پاتی اس لیے ان اشیاء کی کاشت ممکن نہیں ہو پاتی۔ ان کے فارم ہاوس پر ایک چھوٹا مگر خوبصورت اور پیار ا سا کتا بھی زنجیر سے بندھا ہوا تھا۔
میں نے کہا کہ پروفیسر صاحب اتنا خوبصورت کتا آپ نے باندھ کر کیوں رکھا ہوا ہے۔ تو وہ مسکراے اور بولے خوبصورت چیز خطرناک بھی ہوتی ہے اور پھر کتا تو پھر کتا ہی ہوتا ہے چاہے جتنا چھوٹا ہو یا بڑا اور چاہے جتنا بھی خوبصورت کیوں نہ ہو جب کاٹتا ہے تو ٹیکے تو ایک جتنے ہی لگتے ہیں۔ یہ بھونکتا بالکل نہیں مگر ایک دم حملہ کرکے کاٹ لیتا ہے اور بے شمار انجان لوگوں کو زخمی کر چکا ہے اس لیے صرف رات میں اسے کھول دیتے ہیں دن بھر باندھ کر رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی زندگی کا تجربہ ہے کہ کتے پر کبھی اعتماد نہ کریں کیونکہ کتے کی فطرت میں کاٹنا شامل ہوتا ہے اور جو بھونکتے نہیں وہ کاٹتے ہیں کیونکہ بھونکنا دراصل ان کے ڈر اور خوف کی علامت ہوتا ہے جیسے اکیلے اور تنہائی میں لوگ گانا گا کر اپنا خوف دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ خوبصورتی کے باوجود سانپ کی فطرت میں چپ چاپ ڈسنا شامل ہوتا ہے۔ وہ پہلے سے پھنکارنا شروع کردے تو مارا جاتا ہے۔
پروفیسر صاحب کی باتیں سنکر مجھے اپنا سب سے چھوٹا بیٹا ڈاکٹر حسان جاوید یاد آگیا جب وہ چھوٹا سا تھا تو وہ مختلف پالتو جانوروں کا بہت شوقین تھا کئی کتے اور بلی پال چکا تھا۔ ہم ہر ہفتے اباجی سے ملنے احمدپور شرقیہ آتے اور اکثر سوموار کو نماز کے بعد صبح سویرے ملازمت پر پہنچنے کے لیے رحیم یار خان کے لیے روانہ ہوتے تو وہ اپنی ماں کی گود میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہوتا تاکہ سامنے کے شیشے سے باہر کے مناظر دیکھ سکے۔
راستے میں سڑک پر بہت سے کتے ہماری گاڑی کے پیچھے کچھ فاصلے تک بھونکتے ہوے دوڑتے رہتے تو وہ پوچھتا ابو جان یہ کتے ہماری گاڑی کے پیچھے کیوں دوڑتے ہیں؟ کیا یہ گاڑی چھیننا چاہتے ہیں؟ یا ہماری گاڑی میں بیٹھنا چاہتے ہیں؟ انہیں ہماری کس بات پر غصہ آرہا ہےجبکہ یہ تو گاڑی چلا بھی نہیں سکتے؟
میں اسے کہتا یہ تمہیں دیکھ کر تم سے ملنا چاہتے ہیں کیونکہ تم ان سے پیار کرتے ہو تو کہتا اچھا پھر میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہوں تاکہ انہیں نظر نہ آوں وہ پیچھے چھپ جاتا مگر کتے پھر بھی ہماری گاڑی کا پیچھا ضرور کرتے تو کہتا بھلا یہ اب کیوں دوڑ رہے ہیں؟ میں کہتا انہیں تمہاری خوشبو آرہی ہے تو ہم سب ہنس پڑتے تھے۔
ایک مرتبہ گاڑی کے سامنے ایک بڑا سا سانپ آگیا تو وہ چلایا ابو جان سانپ ہے لیکن میں اپنی گاڑی سے اسے کچلتا ہو ا گزر گیا وہ پیچھے دیکھنے لگا تو میں نے کہا پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے کہ وہ مراگیا یا بچ گیا بس ہمارا سفر جاری رہنا چاہیے۔ جب وہ ذرا بڑا ہوا تو اسے بہت کچھ سمجھ آنے لگا تو میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتا کہ زندگی کے سفر میں کچھ اسی عادت کے لوگ بنا کسی مقصد کے آپ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں آپکے پیچھے دوڑتے ہیں آپ کو خوفزدہ کرتے ہیں اس لیے جب آپ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوں اور لوگ آپکی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کریں اور آپ کا راستہ روکنا چاہیں تو ان سے الجھنے کی بجاے اپنی منزل اور مقصد پر توجہ دینی چاہیے۔
ان سے تلخ نہیں ہونا، ان سے بحث نہیں کرنی، ان سے بدلہ لینے والا نہیں بننا، آپ کو ان کے لیے چال چلنے والا نہیں بننا اور نہ ہی جال بچھانے والا بننا ہے ان سے ٹکرانے والا نہیں بننا ہے نہ ان سے الجھ کر وقت ضائع کرنا ہے۔ لیکن یاد رہے ان کے خوف سے اپنی منزل کاا راستہ نہیں بدلنا آپ کی ترقی کا سفر جاری رہنا چاہیے راستے کی کوئی رکاوٹ آپکی طاقت اور رفتار کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔ اس مزاج کے لوگ آپکی ترقی ہی تو روکنا چاہتے ہیں آپ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا اس دوران اگر آپکے جسم، دل اور روح پر کوئی زخم لگ جاے ُ تو پرواہ نہ کریں بدلا لینے سے وقت ضائع ہوتا ہے۔ ان کے لیے بدلے کی آگ میں مت جلنا منزل پر پہنچ کر ان زخموں کا احساس تک نہیں رہے گا۔
قدرت کا اپنا ایک مرہم ہوتا ہے جو ان زخموں کو بھر دیتا ہے۔ چھوڑ دیں جو ہوا، جانے دیں جس نے بھی کیا اپنے پیچھے دروازے بند کرکے آگے بڑھ جائیں زخم دینے والوں، آپ کو تکلیف پہچانے والوں اور آپ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر اپنا حال ٹھیک رکھیں کیونکہ آپ نے وہ نہیں بننا جو حالات آپ کو بنانا چاہتے ہیں بلکہ وہ بننا ہے جو آپ کا مقصد آپکی محنت اور آپکے اعمال آپ کو بناتے ہیں ایسے لوگ کچھ دور آپکے پیچھے دوڑیں گے مگر کہاں تک پھر تھک کر اپنی شکست خود ہی تسلیم کر لیں گے کیونکہ وہ تمہاری رفتار کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔
یاد رہے میرے دادا جان نے مجھے بتایا تھا کہ کتوں کے ڈر سے راستے اور سانپوں کے ڈر سے جنگل نہیں چھوڑے جاتے ہمیں ان کی وجہ سے راستے نہیں بدلنے بلکہ ان سے بچ کر آگے جانا ہے اور کوئی راستہ نہ ملے تو ڈرنا بالکل نہیں ان کو کچل کر گز ر جانا ہے کیونکہ راستہ روکنے والا یا آپکے راستے میں رکاوٹ ڈالنے والا کبھی بھی آپکا دوست نہیں ہو سکتا۔
میرے بیٹے کو اس وقت میری یہ بات شاید سمجھ نہ آئی ہو لیکن آج جب وہ اپنی عملی زندگی میں یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہا ہے اور مقابلہ کر رہا ہے وہ یقیناََ میری باتوں کو سمجھ چکا ہے کہ کتے گاڑی کے پیچھے کیوں دوڑتے ہیں؟ اور کیوں تھک ہار کر پیچھا چھوڑ دیتے ہیں؟ اور راستے میں آنے والے سانپ کو کیوں کچل دیا جاتا ہے؟ وہ جان چکا ہوگا کہ چھوٹے لوگوں کی سوچ بھی ان کے ظرف کی طرح چھوٹی ہوتی ہے جو بڑی اور اچھی سوچ کے سامنے جلد ڈھیر ہو جاتی ہے۔
احساس کمتری کے مارے حاسد ین کبھی بھی تمہارا قد گھٹا نہیں سکتے بلکہ تم سے الجھ کر خود مزید چھوٹے اور بونے ہو جاتے ہیں ان کے چہرے انکی شکست کے گواہ ہوتے ہیں۔ عزت اور ذلت رب کی عنایت ہے لیکن اس پاک ذات کا وعدہ ہے کہ وہ منزل کی جستجو اور اس کے لیے محنت اور جد وجہد کرنے والوں کو ہمیشہ عزتوں سے نوازتا ہے یاد رہے کہ عزت کسی عہدے یا مال سے ہر گز نہیں بلکہ آپکی اہلیت، محنت اور اچھے اعمال سے حاصل ہوتی ہے اتنی مختصر سی زندگی میں دوسروں کو تکلیف دینے والا اور دوسروں سے حد کرنے کا وقت نکالنے والا ذہنی معذور ہی ہوسکتا ہے۔
لیکن پروفیسر صاحب کے بقول پھر بھی یہ احتیاط رہے کہ کتا پھر کتا اور سانپ آخر سانپ ہی ہوتا ہے ان سےخبردار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اپنی فطرت اور عادت سے مجبور ہوتا ہے اسے کاٹنے کے لیے قطعی کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی اور بسا اوقات تو انجانے اور بے خبری میں یہ ہمارا بڑا نقصان بھی کر دیتے ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ ہر انسان کو حاسد ین کے شر سے محفو ظ رکھے کیونکہ حسد کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہوتی جبکہ یہ حاسدین تو چھپے بھی ہمارے اپنوں ہی کے بھیس میں ہوتے ہیں یہ صرف اللہ تعالیٰ کی تقسیم سے اختلاف رکھتے ہیں اور یہی ان کی وجہ عناد ہوتی ہے۔
عرفی تو می اندیش زغوغاےپ رقیباں
آواز سگاں کم نہ کند۔۔ رزق گدارا