Hamare Sabz Hilali Parcham Ka Sufaid Hissa
ہمارے سبز ہلالی پرچم کا سفید حصہ
آج کل سوشل میڈیا اور اخبارت میں بہاولپور کی پہلی ہندو خاتون اسسٹنٹ کمشنر محترمہ ثناء رام گلوانی کی تعیناتی کو بے حد سراہاء اور خوش آمدید کہا جارہا ہے۔ جن کا تعلق ہمارے صوبہ سندھ سے بتایا جارہا ہے اور وہ سی ایس ایس کے امتحان میں نمائیاں کامیابی حاصل کرنی والی ایک باہمت اور باحوصلہ خاتون ہیں۔ یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ایک خاتون اور جو ہمارے ملک کی اقلیت سے تعلق رکھتی ہے اسے بہاولپور میں عوام کی خدمت کا موقع دیا گیا ہے۔
اس سے قبل بھی بےشمار ایسے مرد و خواتین ہمارے ملک کے ہر شعبہ زندگی میں نمائیاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جو یقیناََ اس بات کی عکاسی کرتی ہے قابل ستائش بھی ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں سب کے لیے بلاتفریق مواقع میسر ہیں۔ ہمارا قومی پرچم اپنے اندر سفید حصہ رکھےقومی یکجہاتی کی غمازی کر تا ہے۔ جہاں سب مل جل کر ملک کی ترقی و استحکام میں اپنا اپنا کردار ادا کرہے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے ہمیشہ ایک مثالی ملک رہا ہے۔
کسی بھی ملک کے علم یا پرچم کا مطلب اس کی علامت یا نشان ہوتا ہے۔ اسلام میں پرچم کا رواج ہجرت کے آغاز کے ساتھ ہی ہواتھا۔ جب نبی کریم ﷺ نے اپنا عمامہ مبارک اتارا اور نیزے سے باندھ کر حضرت بریدہؒ کو عطا فرمایا تھا۔ قومی پرچم صرف ایک کپڑے کا ٹکڑا ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ دراصل کسی بھی قوم کی پہچان اور شناخت ہوتا ہے تاکہ نئی نسلیں قومی پرچم کی اہمیت اور اسکے احترام کے ساتھ ساتھ اس کی مقصدیت سے بھی روشناس رہیں۔
ہمارا قومی پرچم ہمارے ملک کا شناختی نشان اور ہمارے ملک کے نظریے اور وہاں رہنے والوں کی نمائندگی کرتا ہے اور ہمارے ملک کی عزت ووقار کی علامت اور ضمانت ہے اور پاکستانی قوم کے اپنے ملک سے سچے جذبے اور محبت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ اسلیے ہم ہر سال یوم آزادی پر نغمہ گاتے ہیں" اس پرچم کے ساےُ تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں" پہلی مرتبہ جب ہمارے قائد ملت لیاقت علی خان شہید نے اسے اسمبلی میں لہرایا تو یہ اس امر کا اعلان تھا کہ اب پاکستانی عوام کسی غیر ملک کے غلام نہیں رہے ان کی اپنی اب الگ شناخت ہے۔
یہ پرچم گہرے سبز اور سفید رنگ پر مشتمل ہے جس میں تین حصے سبز اور ایک حصہ سفید رنگ کا ہے۔ پرچم کا سبز رنگ یہاں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں ہے اور سفید رنگ پاکستان میں امن اور آشتی سے رہنے والی اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ جبکہ سبزحصے کے بالکل درمیان میں چاند (ہلال) اور پانچ کونوں والا ستارہ ہے۔ سفید رنگ کے چاند کا مطلب ترقی اور پانچ کونوں والے ستارے کا مطلب روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے اور پانچ ارکان اسلام کلمہ، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کی جانب اشارہ بھی کرتا ہے۔ یوں پہلے دن سے اقلیتوں کی اہمیت اور احترام کو پاکستان کے قومی پرچم کا حصہ بنا دیا گیا۔
پاکستان میں آباد تمام طبقات کو آئین پاکستان برابری کے حقوق اور مذہبی آزادی دیتا ہے۔ اسلیے پاکستان کے قیام کی جدوجہد اور اس کی تعمیر و ترقی اور حفاظت میں اقلیتوں کا ہمیشہ اہم کردار رہا اور وہ حب الوطنی کے جذبے میں کسی سے کم نہیں رہے۔ پاکستان کے قیام اور اس کی ترقی میں اقلیتوں کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پا کستان کے ہر شعبے میں ان کی نمائندگی اور خدمات نمائیاں نظر آتی ہیں۔
پاکستانی سیاست، معیشت، سول سروس، قانون، کے ساتھ ساتھ فوجی خدمات بھی قابل قدر ہیں۔ پاکستان کے تمام شعبوں میں اقلیتوں کی نما ئندگی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ میرٹ کے علاوہ بھی ہر شعبہ زندگی میں ملازمت کے لیے اقلیتی کوٹہ مخصوص ہے۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں چیف جسٹس اے آر کورنیلنس، جسٹس بھگوان داس، عدلیہ سے، جبکہ اردشیر کاوسجی، نے صحافت میں، اے نیر، ائرین پروین، ایس بی جان، رابن گھوش بنجمن سسٹرز نے موسیقی اور گلوکاری میں اور انیل دلپت، ڈنکن شارپ، اینٹا لوی سوزا، خالد عباد اللہ، نصیر ملک، بروجن داس، جیک بریٹو، بہرام ڈی آواری، جان پارمل، شازیہ ہدایت، سدرہ صدف، نیوا چنن، ایس چمن، فضل عمر، دانش کنیریا، ویلس متھیاس، نے کھیلوں میں جبکہ شبنم، روزینہ نے ادکاری میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
پاکستان کے محکمہ صحت میں بیشتر ڈاکٹرز اور نرسوں کا تعلق بھی اقلیتی برادری سے ہے۔ جبکہ ابھی تازہ ترین سرکاری میڈیا رپورٹ کے مطابق پاک فوج میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے اور پہلے ہندو فوجی آفیسر کو لفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ہے۔ کیلاش کمار پاک فوج میں لفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پانے والے پہلے ہندو آفیسر ہیں جن کا تعلق پاکستان آرمی کی میڈیکل کور سے ہے اور وہ ڈاکٹر ہیں جن کا تعلق سندھ کے علاقے تھر پارکر سے بتایا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ لفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر انیل کمار نے بھی حال ہی میں ترقی پائی ہے جو سندھ کے علاقے بدین سے تعلق رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اور اخبارات میں اسے بہت سراہا جارہا ہے اور اسے اقلیتوں کے لیے اچھی اور تاریخی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے جو ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان انسانی حقوق کے حوالے سے کسی تفریق پر یقین نہیں رکھتا اور اقلیتوں کو تما م سرکاری شعبہ جات حتیٰ کے مسلح افواج میں بھی نمائندگی اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے جاتے ہیں پاک فوج میں اقلیتوں کی شمولیت اور ترقی کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے قبل بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
ائر وائس مارشل ایرک گورڈن ہال، ائر کموڈور نظیر لطیف، اسکوڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی، ونگ کمانڈر مرون مڈل کوٹ، گروپ کیپٹن سیزل چوہدری، میجر جنرل جولین پیٹر، جیسے بڑے نام ہماری تاریخ کا حصہ ہیں 1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ان کو بہادری کے مختلف اعزازت سے نوازا گیا انکی جنگی خدمات کا قومی سطح پر اعتراف بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ گذشتہ سال بلوچستان سے پہلی مسیحی خاتون ماریہ شعمون نے سی ایس ایس کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے اسسٹننٹ کمشنر بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔
بہاولپور میں موجودہ اسسٹنٹ کمشنر خاتون ڈاکٹر ثناء رام چند گلوانی کا تعلق بھی صوبہ سندھ کی ہندو برادری سے ہے۔ وہ سی ایس ایس آفیسر ہیں اور بہاولپور کی تاریخ کی پہلی اسسٹنٹ کمشنر ہیں۔ بےشمار پولیس آفیسرز اور سی ایس ایس افیسرز کا تعلق بھی پاکستانی اقلیتوں سے ہے جبکہ پورے پاکستان کے ہر محکمہ میں اقلیتی برادری کی نمائندگی نظر آتی ہے۔ مجھے اپنی پینتالیس سالہ بینکنگ سروس میں بےشمار بینکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن کا تعلق اقلیتی برادری سے تھا۔
آج بھی خاص طور پر سندھ میں ایک بڑی تعداد بینکنگ کے شعبے سے وابستہ ہے۔ جو بنک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر تعینات بھی ہیں۔ پاکستان کے پہلے ڈپٹی اسپیکر بھی عیسائی برادری سے تعلق رکھتے تھے اور یہ بھی حیرت انگیز اتفاق ہے کہ پاکستانی ترانے کی دھن اور موسیقی بھی ایک مسیحی موسیقار نے ترتیب دی تھی۔ جس پر قوم فخر کرتی ہے۔ جو پاکستان میں اقلیتوں کو دیے جانے والے مساوی انسانی حقوق پر اعتماد کی غمازی بھی کرتی ہے۔ اور یہ بتاتی ہیں کہ ہم اس سبز ہلالی پرچم کے ساے تلے متحد اور ایک ہیں۔
انشااللہ مستقبل میں بھی پاکستان کی تمام محب وطن اقلیتیں ملک کی تعمیر وترقی میں اسی طرح نمائیاں کردار ادا کرتی رہیں گیں اور اس طرح کے بے شمار اعزازت ان کے حصہ میں آئیں گے۔ یہ ہمارے وجود اور قومی پرچم کا وہ سفید حصہ ہیں جن پر پوری قوم کو فخر ہے۔