Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Chota Gosht

Chota Gosht

چھوٹا گوشت

میرا ایک بہت پرانا دوست اور کلاس فیلو مجھے ہر عید پر ضرور ملنے آتا ہے۔ اس سے میری بہت پرانی گپ شپ اور یارانہ ہے۔ میں اسکی غربت اور سفید پوشی سے خوب واقف ہوں اور ہمیشہ اسکی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس مرتبہ وہ عید پر ملنے آیا تو اس کا ایک بچہ بھی ہمراہ تھا۔ میں نے اپنی سی خاطر مدارت کے بعد اس کو قربانی کے گوشت کا ایک پیکٹ دیا تو اس نے پوچھا بھائی آپ نے بڑی قربانی کی تھی یا چھوٹا جانور ذبح کیا تھا۔

میں نے اسے بتایا کہ یار پہلے دن ایک بکرا قربان کیا اور آج ایک بڑے جانور میں حصہ لیا ہے۔ چھوٹے جانور سے کل بیس کلو گوشت نکلا جو گھر، ہمسایوں، بیٹیوں اور رشتہ داروں میں بامشکل تھوڑا تھوڑا کرکے بانٹ دیا ہے۔ آج کا بڑا گوشت وزن میں زیادہ تھا کوشش کی ہے ہر ضرورت مند تک پہنچا سکوں۔ آپکو بھی بڑا گوشت ہی پیش کر رہا ہوں۔ میری بات سن کر وہ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوگیا۔ وہ آنکھ نہیں ملا پا رہا تھا۔ لیکن میں نے اسکی آنکھوں موجود نمی کو محسوس کر لیا اور پو چھا یار کیا بات ہے؟ اداس کیوں ہو گئے ہو؟

اس نے اپنے بچے کو کام کے بہانے کمرے سے باہر بھیج دیا اور باقاعدہ آنسوں بھری آوا زمیں مجھے بتایا۔ جاوید بھائی! مہنگائی اور روز مرہ اخراجات زندگی اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ہم غریب تو کیا متوسط طبقہ بھی پریشانی میں مبتلا ہے۔ اب تو بظاہر کھاتے پیتے گھرانے بھی مہنگائی کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔ سفید پوش لوگوں کے لیے تو مہنگائی ایسی جنگ بن چکی ہے جو انہیں روز ہی لڑنا پڑتی ہے۔ بقول اسکے "مہنگائی ایک ایسی سرنگ ہے جس کے کسی سرے پر اب کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آتی۔ اب تو مرغی تو دور کی بات ہے مرغی کا کلیجی پوٹا بھی دسترس میں نہیں رہا۔ یقین کرو میرے گھر میں پورے ایک سال سے چھوٹا گوشت نہیں پک سکا۔ چھوٹے گوشت کی قیمت دو ہزار روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔ آمدنی وہی پانچ سو روپے روز کی دہاڑی ہے اب تو بڑا گوشت بھی مہینے میں ایک بار تھوڑا سا لیکر پکانے میں بھی دشواری آرہی ہے۔ عموماََ پھیپھڑے اور کلیجی وغیرہ سے گزارہ کرنا پڑتا ہے۔

خیال تھا کہ بقر عید پر چھوٹے گوشت کی نعمت کہیں نہ کہیں سے میسر آجاے گی لیکن یقین کریں جس نے بھی گوشت بھجوایا وہ بڑا گوشت ہی بھیجا۔ پورے محلے میں چند لوگوں نے چھوٹا جانور چالیس یا پچاس ہزار میں لیکر قربان کیا لیکن کل پندہ یا بیس کلو گوشت میں سے وہ کسی غریب کو بانٹنے کی ہمت نہ کر سکا وہ گوشت ان کے گھر میں ہی بامشکل پورا ہو پایا ہوگا۔ پھر اس نے بڑی حسرت سے کہا بھائی ہو سکے تو تھوڑا سا چھوٹا گوشت ضرور دے دیں۔ پورے ایک سال سے بچوں کو بڑی عید کا لارہ لگایا ہوا ہے۔

میں نے اسے چھوٹے گوشت کا ایک پیکٹ لاکر دیا تو اس نے شکریہ ادا کرتے ہوے بڑے دکھ سے بتایا جاوید بھائی ملک کا ایک بڑا حصہ میری طرح اس صورتحال کا شکار ہے۔ اس کے خیال میں لوگوں کی قوت خرید کے ساتھ ساتھ معاشرے میں لالچ اور خود غرضی کا رجحان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ عید کے موقع پر فرج اور ڈیپ فریزر ز کی خرید میں بے پناہ اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ اس نے بتایا بےشمار لوگ تو اب بڑے گوشت سے بھی محروم ہونے لگے ہیں۔ قربانی کا یہ گوشت ایک مخصوص آبادی تک با مشکل پہنچ پاتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ میرے دوست کا یہ اظہار محرومی اور دکھ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے بےشمار ایسے لوگ شرم کے مارے ایسے الفاظ اپنی زبان پر لانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ مجھے اپنے آپ پر بھی افسوس ہوا کہ میں اس کی محرومی سے اتنے عرصہ تک بے خبر رہا۔ کاش اسے یہ بات مجھے کہنے کی ضرورت پیش ہی نہ آتی! اور ناجانے کتنے ہی لوگ ہیں جن کی اناء اور خوداری اظہار کی اجازت بھی نہیں دیتی ہوگی؟

عید الضحیٰ یا بقر عید مسلمانوں کا تہوار ہے جو سنت ابراہیمی کی ادائیگی میں قربانی کا درس دیتا ہے۔ قربانی حج کے باب میں واجب رکن ہے۔ اللہ نے قربانی کا حکم یوں نازل فرمایا "تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو" اس لیے مسلمان سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوے اللہ کی راہ میں قربانی کرتے ہیں۔ مختصراََ سنت ابراہیمی کی پیروی، قربانی کی حقیقت اور فلسفے کو یوں بیان کیا جاسکتا کہ یہ عبادت کے ساتھ ساتھ غریبوں اور نیازمندوں کی مدد، گناہوں کی بخشش کا وسیلہ، موجب خیر وبرکت اور روزگار ہے اور تقرب خدا کا وسیلہ ہے۔ اس لیے قربانی دینی و دنیاوی لحاظ سے بہت اہم ہے اللہ اور اسکے رسول کی کی خوشنودی اور ثواب کے ساتھ ساتھ قربانی کے بے شمار معاشرتی اخلاقی اور معاشی فوائد ہیں۔ جن کا مکمل شمار کرنا بے حد دشوار ہے لیکن چیدہ چیدہ انسانی، معاشرتی اخلاقی اور معاشی فوائد ہی بے شمار ہیں انسانی اور معاشی فوائد کی جانب نظر ڈالیں تو حیران کن فوائد دیکھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ گویا قربانی خیر وبرکت اور حکمت خداوندی کا منبع قرار پاتی ہے۔

اسلام میں قربانی کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ تمام انسانوں تک اللہ کی یہ نعمتیں کے پہنچ سکیں جو اپنی غربت کی باعث ان سے محروم رہتے ہیں۔ اسی لیے قربانی کے ایک حصے کو ہر صورت غرباء میں بانٹنے کا حکم ہے۔ تاکہ رزق کے مخزنوں کو چند ہاتھوں میں اس طرح مرکوز نہ ہونے دیا جاے کہ دوسروں پر اس کے دروازے بند ہو جائیں۔ دولت، قربانی اور ہمارا مال ایک جانب تو ہمارے جذبہ قربانی کو اجاگر کرے تو دوسری جانب پورے معاشرے میں ہر ایک تک اس قربانی کے ثمرات پہنچ سکیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم یہ دینی فریضہ احسن طریقہ سے ادا کر رہے ہیں؟ اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بھکاری اور پیشہ ور مانگنے والے تھوڑا تھوڑا کرکے بے تحاشا گوشت اکھٹا کر لیتے ہیں جبکہ اصل حقدار اپنی خودداری اور اناء کی باعث اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اس مرتبہ قربانی میں تقریباََ چالیس فیصد کمی واقع کر دی ہے جبکہ چھوٹے جانور کی قربانی میں پچاس فیصد تک کمی ہو چکی ہے بکروں اور دنبوں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ مہنگائی کی باعث بڑے جانور کی اجتماعی قربانی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کیونکہ اجتماعی قربانی میں رقم کی بچت کے ساتھ ساتھ عام شہری بہت سی فکروں اور اخراجات سے بھی آزاد ہو جاتا ہے۔

مجموعی طور پر پاکستان میں بڑے گوشت کی قربانی میں بھی تیس فیصد کمی ایک لمحہ فکریہ ہے؟ جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ لوگوں کی قوت خرید بڑی تیزی سے گرتی جارہی ہے۔ تنگدستی کے اس ماحول میں قربانی کا فریضہ دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس سال منڈی لاے گئے جانوروں میں سے چالیس فیصد یا تو واپس لے جانے پڑے یا پھر مجبوراََ اونے پونے داموں بھی بیچ کر جان چھڑاناپڑی کیونکہ منڈی میں خریداربہت کم دستیاب ہو سکا اور رہی سہی کسر بارش، گرمی اور شدید حبس نے پوری کر دی۔

وقت آگیا ہے کہ قربانی کے پورے سسٹم میں جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلی لائی جاے۔ جانورں کی خرید وفروخت اور قیمتوں کا تعین کسی ایک فارمولے کے تحت کیا جاے۔ ان کی قربانی اور گوشت کی تقسیم کو بھی کسی ڈیجیٹل سسٹم کے تحت اس طرح تقسیم کیا جاے کہ ملک کا کوئی فرد اس نعمت سے محروم نہ رہے۔ دوسری جانب اس سلسلے میں ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی سوچ میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ قربانی کے نیک ثمرات صرف کھانے یا دکھاوے اور ہمارے فرجوں تک محدود نہ رہیں۔ بلکہ تمام احس طریقہ سے حقداروں تک ان کا یہ حق پہنچ سکے اور آپکی اور ہماری قربانی کو شرف قبولیت حاصل ہو سکے۔

Check Also

2025 Kya Lekar Aaye Ga?

By Muhammad Salahuddin