Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Andheron Ko Mat Bhoolo

Andheron Ko Mat Bhoolo

اندھیروں کو مت بھولو

پچھلے دنوں میڈیا پر یہ واقعہ شیئر ہوا تو لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا کہ اسلامی ملک الجزائر کے صوبے حنشلہ کا باشندہ "شمس الدین کادہ" جسے لوگ "موكا" کے نام سے جانتے اور بلاتے ہیں، پیدائشی نابینا تو ہے ہی، غربت اور افلاس کا مارا بھی ہے۔

شادی کی بات ہوئی، ماں کے ساتھ درزی کے پاس سوٹ کا ناپ دینے گیا تو درزی کے پوچھنے پر غمزدہ لہجے میں حسرت بھرے الفاط میں یہ شکوہ کر بیٹھا کہ "ہم غریبوں کی شادی میں کون شرکت کرے گا، جبکہ میں چاہتا ہوں کہ میری ماں میری خوشیاں اور میری ہونے والی بیوی میرا اہتمام دیکھ کر خوش اور راضی ہوں؟ اس درزی نے بالکل یہی پیغام موکا کی تصویر کے ساتھ صوبہ حنشلہ کے ایک سوشل میڈیا پیج پر ڈالا، اور پھر اس کے بعد یہ پوسٹ ایسی وائرل ہوئی کہ موکا کی شادی میں صرف الجزائری ہی نہیں ساتھ لگتے ملکوں تیونس، لیبیا اور فلسطین کے ہزاروں لوگ بھی شمولیت کیلئے پہنچ گئے۔

موکا کے گھر کو تحائف، سامان، زیورات اور اثاث سے بھر دیا اور اس کی شادی کو جزائر کی تاریخ کی سب سے خوبصورت شادی بنا دیا۔ ہزار سے زیادہ کاریں اور ان میں سوار بچے اور ان کے گھر والے، 100 سے زیادہ سوپر موٹر سائیکل سوار لوگ، 50 کے قریب گھڑ سوار، دسیوں سے زیادہ ہمہ قسم میوزک بینڈز جن میں قبائلی، صحرائی، ماڈرن موسیقی اور شادی بیاہ کیلیئے مخصوص رقص اور بینڈ باجے والے اور 70 کے قریب بارودی مظاہرہ کرنے والی ٹیمیں شامل تھیں۔

ہزاروں لوگ دولہا کو کندھوں پر اٹھائے دولہن کے گھر پہنچے۔ (کل باراتیوں کا تخمینہ 10 ہزار سے زیادہ افراد کا لگایا گیا ہے)۔ اتنا ہی نہیں، باراتیوں کی طرف سے ملنے والے دولہا دولہن کیلئے ہنی مون پکیجز معمہ بن چکے ہیں کہ وہ دونوں ترکی جائیں یا تیونس۔ بارات میں کچھ لوگوں نے بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر درج تھا ہاں! ہم الجزائری ہیں ہاں ہم سب بھائی ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز موکا، اس کے ماں باپ اور اس کے بھائیوں کا انٹرویو کرتے رہے۔ جن کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین نہیں آ رہا کہ حنشلہ والے ہمارے بیٹے کی شادی کو ایسا یادگار بنا دیں گے۔

سلام ہے ایسی قوم کی عظمت پر جو اپنے بھائیوں کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیتی ہے بے شک الجزائر کے لوگوں نے دنیا کو ایک پیغام دیا ہے کہ اگر زندگی کبھی آپ کو روشنیوں کا تحفہ دے تو انہیں مت بھولنا جنہوں نے کبھی آپ کے ساتھ آپ کے حصے کے اندھیرے بھی بانٹے تھے۔ صحت و تندرستی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں شامل ہے جو لوگ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں۔ انہیں کسی بھی طرح کے احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچا کر ان کو زندگی کے دھارے میں شامل کرنا بڑی بڑائی کا کام ہے۔

یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا دس فیصد معذوری کا شکارہے پوری دنیا میں پینسٹھ کروڑ کے قریب لوگ کسی نہ کسی معذوری کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان خصوصی افراد نے دنیا کے ہر شعبے میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ معذور ضرور ہیں مگر مجبور نہیں ہیں بلکہ ان کا شمار دنیا کے چند منفرد انسانوں میں ہوتا ہے اگر ان کے ساتھ تعاون کیا جائے تو یہ عام انسانوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں بھی روشنی کا نور پھیل سکتا ہے اور اندھیرے دور کئے جا سکتے ہیں۔

یہ واقعہ پڑھ کر مجھے اپنا ایک جوانی کا دوست یاد گیا جو بچپن سے جوانی تک ساتھ رہا اس کی زندگی کسی ہیرو سے کم نہ تھی۔ باڈی بلدنگ کا شوقین یہ پڑھا لکھا اور خوبصورت نوجوان غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کرنے لگا وہ جو کام وہ کرتا تھا اس سے وہ مٹی اور دھول سے اٹا رہتا تھا مگر اپنی بے پناہ محنت اور صلاحیت کی بنا پر ترقی کرتا گیا اور ایک دن اپنی ٹریول ایجنسی کا مالک بن گیا اور مالی طور پر بھی مستحکم ہوگیا۔

اس دوران ہم دونوں کے رابطے غم روزگار کی باعث کم ہو گئے مگر کبھی کبھار ملاقات ہو ہی جاتی تھی۔ ایک دن پتہ چلا کہ اس نے شادی کر لی بڑا غصہ آیا کہ ظالم نے بلایا تک نہیں؟ میں اس کے پاس اس کے دفتر پہنچا اپنا گلہ ظاہر کیا تو اس نے کہا بھائی صفائی کا موقعہ تو ہر مجرم کو ملتا ہے ایک موقعہ مجھے بھی دو میرے ساتھ گھر چلو اپنی بھابھی سے ملاقات تو کرو۔ پھر وہ اپنے گھر لے گیا جب میں بھابھی سے ملا تو ششدر رہ گیا وہ بےحد خوبصورت اور پڑھی لکھی تو تھی مگر دونوں ٹانگوں سے محروم تھی میرے جانے پر اس نے اسے اُٹھا کر بمشکل وہیل چیر پر بیٹھایا۔ ساتھ رکھی ہوئی اسکی بیساکھیاں اس کی معذوری کی علامت تھیں پتہ چلا محترمہ اسکول ٹیچر بھی ہیں اور وہ اسے روزآنہ وہیل چیر پر اسکول پہنچاتے اور واپس لاتے میں نے دیکھا وہ گھر کے کام بھی بیٹھے بیٹھے کر رہی تھی اور میرا دوست ساتھ ساتھ اسکی مدد کر رہا تھا۔

وہ کہنے لگا میں نے زندگی میں بہت دکھ اُٹھائے ہیں اس لیے لوگوں کی باتوں کی پرواہ کئے بغیر میں نے شادی کرکے اس کے دکھ میں شراکت داری کرلی ہے۔ میں بہت خوش ہوں میں پوری زندگی اسے معذوری کا احساس نہیں ہونے دوں گا۔ میں زندگی میں اسکی ٹانگیں اور سہارا بنو گا کیونکہ یہ معذور نہیں بلکہ اسے خدا نے منفرد پیدا کیا ہے جہاں یہ صرف چلنے کی نعمت سے محروم ہے وہیں اسے بےشمار ایسی صلاحیتیں عطا کیں ہیں جو ہم سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ اسکی بات سنکر میں نے اسے بڑے فخر سے دیکھا تو اسکی آنکھوں میں ہمدردی اور محبت کا سمندر موجزن نظر آیا یقیناََمیں اسکے سامنے کھڑا بہت چھوٹا لگ رہا تھا۔

مجھے پہلی مرتبہ معذور اور منفرد کا فرق نظر آیا۔ ایسے ہی میرے ایک دوست نے ایک نابینا لڑکی سے شادی کرکے اسکی آنکھیں بننا اپنے لیے اعزاز سمجھا ہوا ہے۔ اس لڑکی نے بھی انگریزی میں ماسٹرز کرکے اپنے منفرد ہونے کا ثبوت دیا ہے۔۔ مجھے ایک پرانے دوست کی شادی پر جانا پڑا وہ بڑا اچھا فٹبالر ہوا کرتا تھا اکھٹے گراونڈ کے دوست تھے وہاں جاکر معلوم ہوا کہ اسکی دولہن تیزاب گردی کا شکار ہو کر اپنے چہرے کی خوبصورتی گنوا چکی تھی اسکا آدھا چہرہ جھلس چکا تھا۔ پھر بھی اس نے اسے ایک نئی زندگی دینے کا فیصلہ کیا اور جب وہ دولہن بنی تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ شاید اس دنیا کی خوبصورت ترین دولہن تھی اور اپنے دوست کی عظمت کو سلام کرنے کو دل چاہتا تھا۔

بے شمار لوگ شادی کے بعد بیوی کے بانجھ پن کے باوجود بے اولاد رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں مگر بیوی کی محبت میں دوسری شادی نہیں کرتے۔ میرے کئی دوستوں نے تو جان بوجھ کر بانجھ خواتین سے شادی کرکے ان کی زندگی مین خوشیوں کے رنگ بکھیر دئیے ہیں۔ اندھیروں سے اجالوں کا یہ سفر آج بھی جاری ہے اور یہ سلسلہ صرف مردوں تک محدود نہیں میں نے بےشمار ایسی خواتین دیکھی ہیں جنہوں نے صحتمند ہونے کے باوجود معذور ں سے اپنی خواہش اور مرضی سے شادی کی اور بڑی کامیاب ازدوجی زندگی گزار رہیں ہیں۔

انسانیت کا یہ جذبہ اب رفتہ رفتہ بڑھتا جارہا ہے دنیا بھر میں ان منفرد اور خاص لوگوں کو روزمرہ زندگی عام انسانوں کی طرح گزارنے کے لیے ان سے اظہار یکجہتی کا یہی بہترین طریقہ ہےکہ ہم ایک دوسرے کا سہارا بنیں اور کیونکہ ان کی پیدائش خدا تعالیٰ نے ہمارے امتحان کے لیے ہی تو کی ہے۔ تا کہ ہم اپنی تندرستی پر اسکا شکر ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ہم ان کو اپنے ساتھ ساتھ لیکر چلیں تو راستے آسان ہو جائیں گے آخر یہ ہمارے ہی جگر کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔

زبانی طور ہمدردی کے لیے ہم ان کا عالمی دن منا کران سے اظہار یکجہتی تو کرتے ہیں ان کے لیے فلاحی پالیسیاں بھی بناتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کا سہارا بننے کی کوئی بھی تحریک نہیں چلاتے آخر کیوں؟ ہمیں اس بارے میں اجتماعی اور انفرادی طور پر مزید حساس ہونے کی ضرورت ہے۔ اداروں، معاشرے اور ہم سب کو سمجھنا ہوگا کہ یہ سپیشل اور منفرد لوگ ہمارے اپنے لوگ ہیں ان کی بہتری اور ترقی ہمارے پورے معاشرے کی بہتری اور ترقی ہوگی۔

Check Also

Insaniyat Ki Rehnumai Ka Sarchashma

By Adeel Ilyas