Smog Ke Nuqsanat
سموگ کے نقصانات
کچھ دنوں سے میں کالم نہیں لکھ پا رہا تھا میں نے محسوس کیا کہ مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے پھر گلا خراب ہونے لگا اور آواز بھی بیٹھ گئی۔ میں نے کچھ دیسی اور کچھ ولائتی ٹوٹکے استعمال کئے لیکن طبیعت میں بہتری نہ ہوئی بالآخر اپنے فیملی ڈاکٹر اور دوست ڈاکٹر عارف جہانگیر صاحب کے پاس چیک اپ کے لئے ان کے کلینک چلا گیا۔
کلینک کے پاس پہنچا تو منظر ہی کچھ اور تھا، کلینک کے باہر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر تشویش ہوئی کہ یہاں کیا ہوگیا ہے؟ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی لنگر بٹ رہا ہو خیر جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ ہجوم دوائی کا لنگر لینے والوں کا ہے۔ کلینک کے باہر اتنا رش دیکھ کر چیک اپ کروانے کی ہمت ہار دی اور واپس جانے لگا کی اچانک ڈاکٹر صاحب کا فون آ گیا انھوں نے سی سی ٹی وی کیمرے میں مجھے واپس جاتے دیکھ لیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے اندر بلا لیا اور چیک اپ کے بعد مجھے بتایا کہ سموگ کی وجہ سے آپ کی طبیعت خراب ہوئی ہے اور پھر یہ بھی انکشاف کیا کہ اس وقت لاہور میں سموگ سے متاثر ہونے والے مریض زیادہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے ادویات دینے کے علاوہ حفاظتی اقدامات کی تلقین بھی کی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کلینک ہوں یا ہسپتال ان دنوں ہر جگہ سموگ سے متاثرہ مریضوں کا ہجوم نظر آئے گا۔
ورلڈ ائیر کوالٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان کے ثقافتی صدر مقام، پھولوں اور باغوں کے شہر لاہور میں اس وقت ائیر کوالٹی انڈیکس 380 سے اوپر جا چکا ہے جو کہ انسانی صحت کے لئے ایک خطرناک فضاء ہے اس فضاء میں سانس لینے والے افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اوسط عمر میں کمی ہونے لگ جاتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو نے دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ سن 2021 میں پیش کی تھی جس کے اعداد و شمار کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کے باعث لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر میں نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث لاہوریوں کی اوسط عمر چار سال تک بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے 8 ویں نمبر پر سب سے زیادہ خطرے والے ممالک میں شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر ائیر کوالٹی انڈیکس موجودہ سطح پر برقرار رہا تو لاہور میں پیدا ہونے والا ہر بچہ دس سال کی متوقع عمر سے محروم ہو جائے گا جو 5 سال قبل 5 سے 7 سال تھا۔
سموگ پر ریسرچ کرنے والے ماہرین کے مطابق درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند (فوگ) جب دھویں کے ساتھ ملتی ہے تو سموگ بن جاتی ہے۔ سموگ ایک قسم کی فضائی آلودگی ہے جسے فوٹو کیمیکل سموگ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ چھوٹے کیمیائی اجزاء سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔
یہ ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ نہ صرف سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو کر بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ بھارت میں ایسی صنعتیں لگائی گئی ہیں جس سے خارج ہونے والے کیمیکلز سے نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان کی آب و ہوا بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے بھارتی کسان ہر سال اپنی فصلوں کی باقیات کو جلاتے ہیں جس کی وجہ سے فضاء آلودہ ترین ہوتی گئی اور اب ایک خطرناک صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
موجودہ صورتحال کے پیش نظر وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں سموگ میں کمی کے لئے ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے اور سموگ کو آفت قرار دیا ہے۔ پنجاب حکومت نے آئندہ سال سے تیس سال پرانی گاڑیوں پر پابندی لگانے پر بھی غور کر رہی ہے اس حوالے سے انوائرمنٹ پروٹیکشن کونسل کے اجلاس میں مختلف تجاویز پیش کی گئیں ہیں۔
جس کے مطابق کہا گیا ہے کہ آئندہ سال لاہور میں اکتوبر سے دسمبر تک 30 سال سے پرانی گاڑیوں پر پابندی لگائی جائے، شہر میں بڑے پتے والے درخت لگائے جائیں اور کار فری زونز اور دن مخصوص کئے جائیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ان تجاویز پر عمل کر کے آنے والے برسوں میں ماحولیاتی آلودگی کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں سموگ کے خاتمہ کے لئے چین کی طرز پر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ شہریوں کی اوسط عمر میں کمی کی بجائے اضافہ ہو سکے۔