Samaji Insaf Ka Aalmi Din
سماجی انصاف کا عالمی دن
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 20فروری کو عالمی یومِ سماجی انصاف منایا جاتا ہے جس کا مقصد غربت کے خاتمہ اورمعاشرے کے ہر فرد کے لئے روزگار کے یکساں مواقع کو فروغ دینے کے علاوہ، شہریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم اور تشدد کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ اقوام ِمتحدہ نے پہلی مرتبہ26نومبر2007ء کواس دن کو منانے کی منظوری دی تھی جس کے بعد 20فروری 2009ء کو سماجی انصاف کا عالمی دن دنیا بھر میں منایا گیا۔ اس سال سماجی انصاف کے عالمی دن کا تھیم ہے(Achieving Social Justice through Formal Employment)۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 60فیصد سے زیادہ آبادی ورکرز پر مشتمل ہے جس میں سے 3ملین خواتین، مرد اور نوجوان ایسے ہیں جنھیں دیگر ورکرز کی طرح بنیادی سہولتیں اور تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اس بات کا احساس دنیا کو اس وقت ہوا جب کورونا کی وباء پھیلی۔ کوویڈ 19کے بعدجب ہر ملک میں کام کرنے والے افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا تو خطرناک حقائق سامنے آئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دیہاڑی دار، روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے، ریڑھی بان، محنت مزدوری کرنے والے اورچھوٹے دکاندار جومعیشت میں بڑا اہم کردار ادا کررہے ہیں انھیں ورکرز کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
معاشرے کے نظر اندازایسے افراد کو انفارمل ورکر میں شمار کیا جاتا ہے، اس کے برعکس ایسے افراد جو حکومت کے رجسٹرڈ اداروں میں انٹر نیشنل لیبر آرگنائزشن کے قوانین کے مطابق کام کررہے ہیں ان کا شمار فارمل ورکرز میں کیا جاتا ہے۔ فارمل ورکرز کاپرسنل ڈیٹا نہ صرف متعلقہ اداروں کے پاس ہوتا ہے بلکہ حکومت کے پاس بھی ان کے اعدادوشمار موجود ہوتے ہیں جن کی آمدنی و اخراجات کی روشنی میں مالی آمدنی یا خسارہ، ٹیکس یا ریونیو کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے جبکہ انفارمل ورکرز کا پرسنل ڈیٹا حکومت کے پاس نہ ہونے کی وجہ سے ان کی آمدنی اور اخراجات کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے، اسی کمی کی وجہ سے مالی خسارہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
حکومت کے رجسٹرڈ اداروں میں کام کرنے والے فارمل ورکرز کو تمام بنیادی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں مثلا سالانہ اورمیڈیکل چھٹیاں، علاج معالجہ کی سہولتیں، جاب کا تحفظ، پنشن کی سہولت وغیرہ جبکہ انفارمل ورکرز کو کسی طرح کی بھی سہولت اور تحفظ روزگارحاصل نہیں ہوتاحالانکہ ایسے افراد کسی بھی ملک کی معیشت میں ایک بڑا اہم کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جب کورونا کی وباء پھیلی تو یہ بات سامنے آئی کہ ملک میں سب سے زیادہ تعداد انفارمل ورکرز کی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر دیہاڑی لگا کراپنی گذر بسر کرتے ہیں۔
چونکہ ایسے افراد حکومت کے ریکارڈ میں رجسٹرڈ نہیں تھے اور ان کا مکمل ڈیٹابھی نہیں تھا اس لئے ایسے افراد کی امداد کرنے میں زیادہ مشکلات پیش آئیں، اس کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت نے انفارمل ورکرز تک مالی امداد اور راشن پہنچانے کی کوشش کی جس کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کی گئی۔ سماجی انصاف کے عالمی دن کے موقع پرنہ صرف انفارمل ورکرز کو بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے شعور اجاگر کیا جائے گا بلکہ دنیا میں جہاں کہیں شہریوں کے ساتھ عدم مساوات اور ظلم وتشدد ہورہا ہے اس پر بھی آواز اٹھائی جائے گی۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو انڈیا اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ جس طرح انسانیت سے گرا ہوا سلوک کیا جارہا ہے وہ عالمی برادری کے لئے سب سے بڑالمحہ فکریہ ہے۔ انڈین حکومت ایک طرف سماجی انصاف کی فراہمی کا ڈھونگ کرتی ہے تو دوسری جانب مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے بنیادی حقوق سلب کررکھے ہیں۔ مسلمان طالبہ مسکان کی حالیہ ویڈیو انڈیا کے حکمرانوں کی جانب سے سماجی انصاف کے بارہا جھوٹے دعویٰ کی دھجیاں اڑانے کے لئے کافی ہے۔
اس ویڈیو کو دیکھ کر دنیا کو پتہ چلا کہ کس طرح انڈیا میں مسلمان طالبات کو جبری طور پر حجاب نہ کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ آئے روز مسلمانوں کو گائے کے گوشت کا بہانا بنا کر عوامی تشدد کرکے مار دیا جاتا ہے تو کبھی دیومالائی کہانیوں کو بنیاد بنا کرمساجد کو شہید کرکے مندر بنائے جارہے ہیں، اس کے علاوہ تشدد کرکے مسلمانوں سے ہندو مذہبی نعرے لگوانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو سماجی انصاف کے اس عالمی دن کے موقع پر انڈیا اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمان شہریوں پر ہونے والے مظالم کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مودی حکومت پر سماجی انصاف کے بین الاقوامی قوانین پرسختی سے عمل کرنے کے لئے دباو ڈالنا چاہئے۔