Entry Test Ka Ghair Mayari Nizam
انٹری ٹیسٹ کا غیر معیاری نظام
مارچ 1948ء میں ڈھاکہ میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا" میرے نوجوانو، میں تمہاری طرف توقع سے دیکھتا ہوں کہ تم پاکستان کے حقیقی پاسبان اور معمار ہو۔ قائد کے فرمان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نوجوان اگر پڑھا لکھا اور برسر روزگار ہو گا تو ملک میں ترقی کی رفتار اتنی ہی تیز ہوگی، اسی لئے دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی تعمیرو ترقی میں۔
نوجوانوں کی بھرپور صلاحیتوں سے استفادہ کرنے اور انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے تعلیم اور روزگار سے متعلق بہترین پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کا نوجوان بے روزگاری سے پہلے ہی تنگ تھا کہ اب ان کے لئے تعلیم کا حصول دن بہ دن مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے سن2017میں ایجوکیشن ٹیسٹنگ کونسل قائم کی۔
جس کا مقصد سرکاری یا غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلہ سے قبل طلباء کا ٹیسٹ لینا ہے۔ ان انٹری ٹیسٹ کو یو ایس اے ٹی کہا جاتا ہے، یعنی اگر کوئی طالب علم یو ایس اے ٹی ٹیسٹ نہیں دے گا یا پاس نہیں کرے گا تو وہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلہ سے محروم رہ جائے گا۔ یہ کیسی تعلیمی پالیسی ہے۔ جس میں طلباء کو تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کی بجائے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔
اس طرح کے نظام سے شرح خواندگی میں اضافہ ہوگا یا کمی؟ ہائیر ایجوکیشن کے انٹری ٹیسٹ نظام کو تعلیمی اداروں نے ابتداء میں ماننے سے انکار کر دیا تھا تاہم اس سال تمام تعلیمی اداروں خصوصا سرکاری یونیورسٹیوں نے یو اے ایس ٹی ٹیسٹ کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ جس کی وجہ سے طلباء میں شدید بے چینی پھیلی ہوئی ہے، دوسری جانب ابھی بہت سے انڈر گریجوایٹ طلباء اپنے رزلٹ کے انتظار میں ہیں۔
جبکہ ہائیر ایجوکیش نے انٹری ٹیسٹ کی تاریخوں کا علان کر دیا ہے۔ انٹری ٹیسٹ سائنس، آرٹس، کامرس اور مختلف مضامین کی مناسبت سے لئے جارہے ہیں۔ اس طرح اگر ایک طالب علم سائنس کے لئے انٹری ٹیسٹ پاس کر لیتا ہے، تو اسے سائنس پروگرام میں ہی داخلہ لینا پڑے گا، لیکن اکثریت طلباء سالانہ امتحان کے رزلٹ آنے کے بعد حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انھوں نے کن مضامین میں آگے داخلہ لینا ہے۔
بہت سے سائنس کے طلباء نمبر کم آنے پر کامرس یا آرٹس میں داخلہ لے لیتے ہیں۔ لیکن انٹری ٹیسٹ کے ناقص نظام کی وجہ سے وہ ٹیسٹ پاس کرنے کے باوجود داخلہ سے محروم رہ جائیں گے۔ طلباء کا کہنا ہے کہ اگر داخلوں کے لئے انٹری ٹیسٹ ہی لازمی ہے تو پھر سالانہ امتحان کے رزلٹ اور نمبروں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ طلباء کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کے انٹری ٹیسٹ کا مقصد صرف اور صرف پیسے بٹورنا ہے۔
انٹری ٹیسٹ نے طلباء کا تعلیمی مسقبل داو پر لگا دیا ہے۔ اگر ایک طالب علم سالانہ امتحان میں اچھے نمبر حاصل کرنے کے بعد کسی وجہ سے انٹری ٹیسٹ پاس نہیں کرپاتا تو وہ سرکاری تعلیمی ادارے میں داخلہ سے محروم رہ جائے گا۔ اقوام متحدہ اور ورلڈو میٹرز(Worldometers)کے اعدا شمار کے مطابق پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔
جس میں سے تقریبا ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، اور نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ اگر نوجوانوں کوہی تعلیم کے بہتر مواقع فراہم نہ کئے گئے تو اس ملک کی ترقی میں رکاوٹ کے سب سے بڑے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔ اقتصادی سروے رپورٹ 22-2021ء کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے دوران شرح خواندگی میں صرف 0۔ 4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ہمارے ملک میں شرح خواندگی کی رفتا کا جائزہ لیں کہ ایک سال کے دوران شرح خواندگی صرف 0۔ 4 فیصد بڑھی ہے، یعنی شرح خواندگی 62۔ 4 سے 62۔ 8 فیصد ہو گئی ہے۔ اگر اسی رفتار سے ہم بڑھتے رہے تو تعلیم اور ترقی کے اہداف کب اور کیسے پورے ہوں گے؟ ملک بھر میں گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے طلباء کی تعداد 25 لاکھ کے قریب ہے۔
طلباء کے مستقبل کا فیصلہ انٹری ٹیسٹ کے نظام پر چھوڑنا طلباء کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوگی، اس لئے حکومت کو چاہیئے کہ یونیورسٹیز اور کالجز میں داخلوں کے لئے انٹری ٹیسٹ کی بجائے نئے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لائے تاکہ ملک کا ہر نوجوان تعلیم حاصل کرسکے۔