Aafat Aur Ghair Munazzam Sargarmiyan
آفات اور غیر منظم سرگرمیاں
2005 کے زلزلے میں تباہی بے تحاشہ تھی، چونکہ زلزلہ کی شدت سے مکانات تباہ اور لوگوں کو اپنے پیاروں سے بچھڑنے کے دکھ کے ساتھ عمر بھر کی معذوری کا سامنا بھی تھا۔ وہی بے رحم موسم کی شدت، کھلا آسمان، تیز بارشیں۔ خوراک کی کمی، زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے طبی سہولیات سے محرومی، انفراسٹرکچر کی تباہی اور دور پہاڑوں میں بکھرے یہ لوگ لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب تر تھے۔
ریسکیو آپریشن میں خاندان کے افراد کے پچھڑنے کے ساتھ بردہ فروش، پیشہ ور بھکاری، چور اچکے اور فراڈئیے جو مختلف روپ دھارے الگ سے مصیبت بن کے نازل ہوئے تھے۔ ہمارے ہاں ایسی صورت حال میں سب پہلے غیر منظم انداز خوراک اور لباس کی فراہمی کی صورت سامنے آتا ہے۔ ہر شخص بنا کسی کوآرڈینیشن کے راشن، لباس کو اکھٹا کرتا نظر آتا ہے ایک ہی علاقے میں مختلف این جی اوز کے ساتھ انفرادی طور پر امداد جمع کرنے والے افراد ہوتے ہیں جن کے پاس نہ علاقے کی جان پہچان ہوتی نا ہی وہاں کے افراد کی ضرورتوں کے بارے آگاہی اور نا بہترین ٹیم ورک۔
ایک ہی متاثرہ گھر کو پانچ دس افراد راشن پکڑا کر چلے جاتے ہیں۔ جس کی اسے بالکل بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی مثال اس بات سے لگا لیں مظفر آباد میں 2005 کے زلزلے کے دوران یہ بات بطور مثال مشہور تھی کہ ایوری ڈے کا دودھ اتنی کثرت سے آیا کہ لوگ استنجا وغیرہ بھی اسی سے کرنے لگ گئے۔ غیر منظم امدادی سرگرمیوں سے لوگوں کے دئیے ہوا سرمایہ غیر اہم چیزوں کی فراہمی میں ضائع ہو جاتا ہے۔
متاثرہ افراد کی بحالی کا اصل کام ان کی مستقل بنیادوں پر بحالی ہے اس کے گھر کی چھت کا انتظام، اس کی معاشی سرگرمیوں کے لیے اسباب کا بندوبست اور اس کے علاج کے لیے سہولیات فراہم کرنا۔ یہ سب چیزیں ایک منظم، باصلاحیت اور اہل ادارے چاہے وہ نجی ہو یا سرکاری وسیع نیٹ ورک رکھنے والے ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ جن کی شہرت اور ساکھ معاشرہ میں اپنا نمایاں مقام رکھتی ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ایک فرد امداد اکھٹی کرتا ہے اس کا کچھ سماجی پس منظر ہے پھر وہ سامان کی تقسیم کے لیے کسی علاقے کا اعلان کرتا ہے۔ مگر کچھ وقت کے بعد وہ کہتا ہے کہ وہاں تو لوٹ مار ہے تو میں فلاں مذہبی تنظیم کے ساتھ جا رہا ہوں کیونکہ ان کے پاس افرادی قوت موجود ہے۔ تو سوال ان صاحب سے بنتا ہے کہ یہ کام آپ پہلے بھی کر سکتے تھے۔ ایک خاتون اعلان کرتی ہیں کہ میں جنوبی پنجاب کے فلاں علاقے سے ہوں یہ میرا نام ہے اور نمبر ہے آپ اس پر چندہ بھیجیں اور کسی این جی اوز کو مت دیں۔
تو ان سے سوال ہے کہ کیا آپ اتنے منظم انداز میں لوگوں کے مسائل جو اوپر بیان ہوئے کر سکتے ہیں؟ متاثرہ علاقوں میں افراتفری کی بدولت یہی لوگ پھر دباؤ برداشت نہ کرنے پر سامان کو غیر مستحق افراد کو دے کر جان چھڑوا کر آ جاتے ہیں۔ اس لیے بھیڑ چال سے بچتے ہوئے، جتنے بھی شوشل میڈیا ایکٹوٹس یا سماجی طور پر خود کو نمایاں کرنے والے افراد یا آن لائن کسی بھی قسم کی جان پہچان رکھنے والے افراد کو چندہ دینے سے گریز رکھیں۔ تاکہ امداد درست انداز میں منظم طریقے سے مستحق تک پہنچ جائے۔