Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imtiaz Ahmad
  4. Chote Qasbe Mein Bare Dil Wala

Chote Qasbe Mein Bare Dil Wala

چھوٹے قصبے میں بڑے دل والا

کہتے ہیں کہ کسی نے مشکل وقت میں کوئی احسان کیا ہو تو اسے کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ میری زندگی میں لقمان کا شمار بھی ان دوستوں میں ہوتا ہے، جو مشکل وقت میں بھاگے نہیں بلکہ میرے کام آئے۔ میٹرک کے بعد وکی اور عامر کے علاوہ نوشہرہ ورکاں میں، جس انسان سے میرا ملنا جلنا رہا، وہ لقمان تھا۔

نوشہرہ جاوں تو گھر کے علاوہ بھائی اعجاز کے میڈیکل اسٹور پر چائے پینے روزانہ جاتا ہوں، حکیم مظفر زیدی صاحب کی دکان پر تب جانا شروع کیا تھا، جب نوویں، دسویں کلاس میں جنگ اخبار پڑھنے کا شوق چڑھا تھا۔ حکیم صاحب نام سے عمر رسیدہ اور بڑے بڑے لگتے ہیں لیکن انتہائی باذوق اور ادبی شخصیت ہیں۔ ایک اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ شاندار معالج بھی ہیں۔ ان کی شخصیت پر ایک الگ سے مضمون لکھا جا سکتا ہے۔

ان کے علاوہ ایک، دو بار لقمان سے ملتا ہوں، اول اول کی محبت کے راز داں امتیاز منصور صاحب سے ملاقات ہوتی ہے یا پھر پنجابی کے نامور شاعر سلطان کھاروی صاحب سے۔ دلبر جانی وکی اور عامر گوجرانوالہ سے ملنے آ جاتے ہیں اور سالہا سال کی یہی روٹین ہے۔

خیر لقمان کی طرف واپس آتے ہیں، جسے لوگ اب لقمان شیخ کے نام سے جانتے ہیں۔ ہماری دوستی کا آغاز اس وقت شروع ہوا تھا، جب شیخ صاحب نوویں کلاس میں اچانک سچے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے اور مجھ سے ایک محبت نامہ لکھوانے کے لیے آ پہنچے تھے۔

شیخ صاحب نے کہا کہ امتیاز خط ایسا ہو کہ لڑکی کو میری سچی محبت پر اعتبار آ جائے۔

میں نے بھی وہ محبت نامہ بڑی محنت سے اور دل لگا کر لکھا تھا لیکن شیخ صاحب کی قمست ماڑی، آگے سے جواب اتنا کڑک دار تھا کہ شیخ صاحب نے پھر زندگی بھر کوئی خط لکھنے کی فرمائش نہیں کی۔ وہ سچی محبت تو کوئی تین دن بعد ہی ختم ہوگئی لیکن ہماری دوستی قائم رہی۔

اس عرصے میں کئی مرتبہ ایسے ہوا کہ مجھے اچانک مدد کی ضرورت پڑی اور میں نے رات کو بارہ بجے بھی دروازہ کھٹکٹایا تو لقمان آگے سے ہنستا مسکراتا ہی ملا۔ لقمان میٹرک میں تھا تو تب بھی سب کی مدد کے لیے تیار ہوتا تھا اور اس کی یہ عادت وقت کے ساتھ ساتھ مزید پختہ ہوتی جا رہی ہے۔

لکھنے کا مقصد اس کے ایک ایسے کام کی تعریف کرنا ہے، جو لقمان اپنے بڑے بھائیوں کی مدد سے گزشتہ کئی برسوں سے کر رہا ہے۔ دس سال قبل اس نے غریب مریضوں کے لیے ایک چھوٹا سا کلینک شروع کیا تھا لیکن آج وہ کلینک ایک ہسپتال کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

سال بھر میں مختلف میڈیکل کیمپس لگائے جاتے ہیں، ٹیسٹ ہوتے ہیں، ادویات دی جاتی ہیں اور کسی بھی مریض سے ایک روپیہ تک وصول نہیں کیا جاتا۔ اس چھوٹے سے ہسپتال میں یومیہ تقریبا پانچ سو مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ سالانہ بجٹ اب کئی ملین روپے تک جا پہنچا ہے اور یہ سلسلہ دن بدن پھیلتا جا رہا ہے۔

گزشتہ روز فیس بک پر میڈیکل کیمپ کی تصاویر دیکھیں تو مجھے وہ وقت یاد آ گیا، جب لقمان یہ کہا کرتا تھا کہ یار کوئی چھوٹا سا ہسپتال ہونا چاہیے، جہاں سب کو مفت ادویات دی جائیں۔ آج اس کا یہ خواب حقیقت بن کر اس کے سامنے کھڑا ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے میں بھی یہ کوشش کر رہا ہوں کہ بہانے بہانے سے ہر اس شخص اور اس دوست کا شکریہ ادا کروں، جس نے کبھی مجھ پر احسان کیا تھا اور وہ خود اس احسان کو بھول چکا ہے۔ ہر اس انسان کو شکریہ کہوں، جس نے اس وقت ہمدردی کی تھپکی دی تھی، جب مایوسیاں بال کھولے میرے چاروں طرف محو رقصاں رہتی تھیں۔

لقمان شکریہ کہ تم نے کبھی مشکل میں میرا ساتھ دیا تھا، شکریہ کہ تم اس احسن طریقے سے ایک کلینک چلا رہے ہو، جہاں کسی کی مالی حالت پوچھے بغیر مفت علاج معالجہ فراہم کیا جا رہا ہے۔

آپ اپنے اردگرد دیکھیں تو آپ کو بھی ایسے درجنوں افراد نظر آئیں گے، جنہوں نے مشکل وقت میں یاکبھی نہ کبھی آپ کا ساتھ دیا تھا، آپ پر احسان کیا تھا، یا جو اپنی سکت کے مطابق فلاحی کاموں میں مصروف ہیں۔ آفتوں کے دور میں، بلا جھجھک ایسے لوگوں کا شکریہ ادا کیجیے!

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed