Tabish Zamzama Wahdat Sehba
تابش زمزمہ وحدت صہبا
ہم اہل ملتان سورج دیوتا کے پجاری ہیں، ہر صبح جب تک خورشید جہاں تاب کو سوریا نمسکار نہ کر لیں ہمارا دن شروع نہیں ہوتا۔ آج بیس روز ہونے کو آئے زیارت آفتاب سے محروم ہیں۔ اتنی ٹھنڈ ہے کہ سورج کی امّی نے اس کو باہر نکلنے سے منع کر دیا ہے۔ دھند اتنی ہے کہ آنگن میں کھڑی بھاری بھرکم بیگم بھی نظر نہیں آتیں۔ ہر چند کہ ہماری دید میں بینائی انہی کے دم سے ہے۔ اور یہ ان کی ہم سے محبت کی دلیل ہے کہ جب سے ہماری نظر کمزور ہونا شروع ہوئی ہے۔ وہ خود کو تنومند کرتی جا رہی ہیں۔ صرف اس لیے کہ ہمیں نظر آتی رہیں۔ جس کا فوری اور غیرحتمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری نظر کا نمبر 2 پر پہنچ گیاہے اور بیگم 85 کلو کی ہوگئی ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی ملتان میں سردی کی، تو سورج نہ نکلنے کی وجہ سے جسم اور روح تو کانپ ہی رہے ہیں۔ اب تو ایمان بھی ڈانواں ڈول ہے۔ مصطفی زیدی صاحب جب مری میں AC تھے تو سردیوں کی ایک رات انہوں نے کہا تھا برفباری میرے کمرے میں اتر آئی ہے، تابش زمزمہ و حدت صہباء مدد دے آجکل ہارے اور تابش زمزمہ و حدت صہباء کے درمیان صرف ڈولتا ہوا ایمان کھڑا ہے۔ اللہ ہمارے ایمان کو استقامت بخشے۔ موسم کی سختی نے لہجوں کو بھی سخت کر دیا ہے۔ موسم تو سرد ہے ہی، سرد مزاجی بھی اپنے عروج پر ہے۔ قہر خزاں نے درختوں کو تو بےلباس کیا ہی ہے، لیکن سرد مزاجی نے منافقتِ دوستاں کو بھی عریاں کر دیا ہے۔ اسی لیے جی ڈرتا ہے کہ اگر یہ کیفیت زیادہ دیر برقرار رہی تو ہم کہیں درِ کعبہ عرفاں اٹھ کر مرید پیرِ مغاں نہ ہو جائیں۔ جیسا کہ ہمارے احباب جانتے ہیں کہ ہماری پہلی، دوسری، تیسری اور شاید آخری محبت ہماری بیگم ہیں۔ آخری میں نے شاید اس لیے کہا کہ مرد کی فطرت ایسی ہے کہ اگر اس کو زمرد کے پیالے میں آب حیات بھی میسر ہو تب بھی وہ باہر نکل کر سونگھنے سے باز نہیں آتا۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ ابھی پرلے روز کی بات ہے۔ ہماری خانم خانہ گرم شال اوڑھے ہیٹر کے سامنے تشریف فرما تھیں کہ ہمارا ہاتھ غلطی سے ان کے کاندھے سے ٹکرا گیا۔ وہ چیخ مار کر یوں اٹھیں، جیسے 440 وولٹ کا کرنٹ لگ گیاہو۔ انہوں نے منہ سے تو کچھ نہیں کہا مگر ہم سمجھ گئے۔
سرد ہاتھوں سے چھوا تو تڑپ کر بولے بھاڑ میں جائے یہ رومان، بہت سردی ہے۔