Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imran Kharal
  4. Rohi

Rohi

روھی

جو لوگ کبھی روھی گئے نہیں یا روھی میں رھے نہیں۔ وہ ہماری روھی کو ایک ریگزار تصور کرتے ھیں۔ اُن کے گمان میں بلکہ بدگمانی میں روھی آگ اُگلتا ھوا کوئی صحرائے بے کنار ہے۔ سرابوں کی کوئی وادیِ پُر خار ہے اور پیاس اور بھوک کا بے آب و گیاں سنسار ہے۔ جہاں صرف سانپ اور بچھو رھتے ھیں۔

لیکن ہم سرائیکی لوگوں کو روھی سے عشق ہے۔ سرائیکی شاعر اور ادیب روھی کو محبوبہ تصور کرتے ھیں اور اس پر غزلیں نظمیں اور کبھی کبھی مرثیے تخلیق کرتے ہیں۔ لیکن میرے لیے روھی ماں کی طرح ہے۔ وہاں اللہ نے میرے رزق کا وسیلہ تو رکھا ہی ہے۔ مگر وہاں جو سکون میسر آتا ہے وہ صرف ماں کے آنچل تلے ہی مل سکتا ہے۔

در خرابات مغاں نور خدا می بینم

ہم جیسے لوگ جو چمکتے خوابوں کو آنکھوں میں سجا کر شہروں کی طرف نکل آتے ھیں۔ تمام عمر بلند و بالا عمارتوں میں اپنے گاؤں تلاش کرتے رھتے ھیں۔ بلکُل اُس طرح جیسے سورج پر گھر بنانے والے چھاؤں تلاش کرتے رھتے ھیں۔ یا دلدلوں میں تن کر کھڑے رہنے والے اپنے پاؤں تلاش کرتے رہتے ھیں۔

میں اُن خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جو روھی سے دور رہ کر بھی ہر ماہ اُس کی زیارت کر آتا ہوں۔ ہر چند کہ وہاں بجلی نہیں۔ موبائل کے سگنل نہیں آتے۔ دوسری شہری سہولتیں نہیں ہیں۔ مگر وہاں جو سکوں میسر ہے اُس کا لاہور یا کسی دوسرے شہر میں تصور بھی ممکن نہیں اور پھر وہاں جا کر اپنی ماں بولی بول کر ایک الگ راحت ملتی ہے۔ لاہور میں تو ہم شاید ماں بولی میں خودکلامی بھی نہیں کرتے۔

ویسے پنجابی بھائیوں کو داد دیتا ھوں کہ وہ نا صرف اپنی زبان بولتے ہیں بلکہ اُسکی حفاظت کی کوشش بھی کرتے ھیں۔ ابھی پرلے روز ہی اُن لوگوں نے پنجابی دن منایا اور ایسے منایا کہ پروفیسر عباس مرزا جیسے جید عالم، خوش لباس و خوش کلام استاد، بلکُل ہیر کے رانجھے لگ رھے تھے۔ باصر زیدی تو عزت سادات فراموش فرما کر پکے مرزا جٹ بنے ھوئے تھے اور ہم سرائیکیوں کا عالم یہ ہے کہ اگر مشاعرے میں چلے جائیں تو اردو اور پنجابی کلام تو بہت ہے۔ مگر سرائیکی ندارد۔ وہ تو اللہ محترمہ روقیہ اکبر چودھری کو عمر خضری عطا فرمائے۔ ہم جیسوں کی عرض گزاری پر سرائیکی کلام عطا فرما دیتی ھیں۔ زبانیں ایسی ہی تباہ نہیں ہوتیں۔ قومیں خود ایسا کرتی ہیں۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan