Noha e Aqal
نوحہ عقل
بڑے بوڑھوں سے سنا تھا کہ گردش ماہ و سال اور تجرباتِ لیل و نہار انسانوں کی عقل و آگاہی میں اضافہ کر دیتے ہیں، لیکن خود کو جب اس کسوٹی پر پرکھا ہے تو یہ محسوس ہوا ہے کہ ہم بوڑھے ضرور ہو گئے ہیں پر بزرگ نہیں ہوئے، کیونکہ بقول شیخ سعدی بزرگی عقل کے ساتھ آتی ہے اور ہمارے دامن میں عقل ندارد۔
ہمارے پاس عقل نہیں ہے اس کا احساس ہمیں کبھی نہ ہوتا اگر ہماری شادی نہ ہوئی ہوتی۔ بیگم صاحبہ نے پچھلے بیس سالوں سے یہ بات کوٹ کوٹ کر ہمارے دماغ میں بھر دی ہے کہ ہم کم فہم و کم عقل ہیں۔ ہر دوسری بات پہ کہتی ہیں آپ کو کیا پتا اور وہ یہ بات اتنے یقین محکم کے ساتھ فرماتی ہیں کہ ہم ان کی بات کی مکمل تائید پرمجبور ہو جاتے ہیں۔
آج سے بہت سال پہلے جب ہمارے بیٹوں کی عمر سکول جانے کی ہوئی تو ہم نے گزارش کی کہ بچوں کو لاہور کے ایک عظیم تعلیمی ادارے کے بورڈنگ میں بھج دیا جائے تو انہوں نے کہا کہ سکول کی حدتک تو بات ٹھیک ہے لیکن بورڈنگ نہیں۔ کیونکہ ہمارے بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ ہم نے عرض گزاری کہ ہم بھی تو اس عمر میں بورڈنگ چلے گئے تھے۔ اس پر انہوں نے کمال بےنیازی سے فرمایا کہ میں نہیں چاہتی کہ ہمارے بچے آپ جیسے بنیں اور اس دن کے بعد سے آج تک ہم کرید کرید کر ان خامیوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو بورڈنگ میں جانے کی وجہ سے ہمارے کردار و عمل میں در آئی ہیں۔
اپنی اس شکل کو دیکھا ہے تو خوف آتا ہے۔۔
ہر چند کہ ہم نے پاکستان کی سب سے معتبر یونیورسٹی سے اس وقت سوفٹ ویئر انجنیئرنگ کی جب وطن عزیز میں اس کا نام بھی کم لوگوں نے سن رکھا تھا لیکن حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو، کہ اب جب ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹیوں میں چلے گئے ہیں اور جب وہ میرے ساتھ تعلیمی اور علمی معاملات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں تو اکثر نہایت مہذب انداز میں کہہ دیتے ہیں، بابا آپ کو کیا پتا۔
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
ویسے تو حضرت جوش نے کہا تھا
زوال عقل ہو جس سے وہ آب تاک حرام
جواور ہوش میں لائے وہ جام ہے ساقی
اس پر بھی ہم نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ زوال عقل کے ویرانے سے نکل کر ساقی کے مے خانے میں جایا جائے۔ اس میں ہمیں دو فائدے نظر آئے۔
ایک تو یہ کہ بقول حضرت حافظ شیرازی
در خرابات مغاں نور خدا می بینم
اگر ایسا ہوگیا تو دنیا اور آخرت دونوں ہی سنور جائیں گی۔ اور اگر خدانخواستہ یہ نہ ہوا تو کم از کم خط سکوت کون و مکاں کو ڈولتا تو دیکھ آئیں گے مگر بدقسمتی سے ایسا بھی نہ ہو سکا۔ انور مسعود صاحب نے یاد دلایا کہ
مجھ کو شوگر بھی ہے اور پاس شریعت بھی ہے
میری قسمت میں نہ میٹھا ہے نہ کڑوا پانی
ایک اور چیز جس کا ادراک ہمیں شادی کے بعد ہوا، وہ یہ کہ ہم بزدل ہیں۔ اور اب اتنے ماہ و سال گزرنے کے بعد ہماری بزدلی اپنے بام عروج پر پہنچ گئی ہے۔ اگر ہم خاتون خانہ کے ہمراہ جا رہے ہوں اور سر راہ گزر کوئی قبول صورت ادھیڑ عمری ہماری جانب دیکھ لے تو بجائے اس کے کہ ہم نظروں سے اسے داد حسن دیں ہم آنکھیں جھکا کر بیگم کے سینڈلوں کی طرف دیکھنے لگتے ہیں
کوئی حد ہی نہیں اِس احترامِ آدمیّت کی
بدی کرتا ہے دشمن اور ہم شرمائے جاتے ہیں