Lisan e Adab
لسانِ ادب

ہم عام زندگی میں جو زبان بولتے ہیں اگر اس کا استعمال ادب تخلیق کرتے ھوئے کریں تو وہ ادب کا حُسن کہلاتی ہے۔ مگر عام بول چال میں ہم خالص ادبی زبان استعمال کریں تو مشکل ھو جاتی ہے۔ اس کا ادراک مجھے ایران جا کر ھوا۔ ہر چند کہ مجھے فارسی نہیں آتی مگر ایران میں جا کر تھوڑی فارسی بولنے کی کوشش شروع کر دی۔ لیکن جلد ھی مجھے احساس ھوا کہ اہل ایران میری فارسی سُن کر ہنسنے کی بجائے مجھے گھورنے لگتے ہیں۔
ہنسنے کا ذکر اس لیے کیا کہ میرے اکثر احباب میری انگریزی سُن کر نہ صرف مسکراتے ہیں بلکہ کبھی کبھی قہقہے بھی لگاتے ہیں۔ مگر ایرانیوں کا گھورنا سمجھ سے بالاتر تھا۔ خیر ایک دن ہوٹل کی لابی میں ایک ایرانی خاتون سے ملاقات ھوئی جس کو انگریزی آتی تھی۔ مجھے وہ خاتون اس لیے بھی اچھی لگی کہ اس کی انگریزی بھی میرے جیسی تھی۔ میں نے اس سے اپنی مشکل بیان کی اور ایرانیوں کے گھورنے کا سبب پوچھا تو وہ گویا ھوئیں "جو فارسی آپ بولنے کی کوشش کر رھے ہیں وہ ھمارے دادا، پردادا تو شاید بولتے ھوں مگر ہم نہیں بولتے"۔ تب مجھے خیال آیا کہ میں نے جو تھوڑی بہت فارسی سیکھی ہے وہ تو سعدی اور حافظ کو پڑھ کر سیکھی ہے اور وہ ادب کی زبان ہے۔
یہ بلکل ایسے ھی ہے کہ سری لنکا کا کوئی شخص لاھور آ کر ہم سے فسانہِ عجائب کی زبان میں گفتگو شروع کر دے اور کہے کہ "اُس وقت وہ ماہِ سیما کششِ دل اور تپشِ متصل سے مطلع ھو، دیوانہ وار کوٹھے پر چڑھی اور بے تابانہ پوچھا کہ یہ لاشِ دل خراش کس جگر پاش کی ہے کہ ماجبانِ بارگاہِ عشق سے صدا، دور باش دور باش کی ہے"۔ ایسی زبان اور وہ بھی سری لنکا کے باشندے سے سُن کر اگر ہم اُسکو ماریں نہ بھی گھوریں گے ضرور۔
ویسے فسانہِ عجائب سے خیال آیا کہ اس کتاب میں رجب علی بیگ کی نثر پڑھ کر ہم عش عش کرتے ہیں۔ مگر اسی کتاب میں اُن کی شاعری پڑھ کر احساس ھوتا ہے کہ رجب علی بیگ سرور بہت عقلمند آدمی تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنی نثر پر توجہ دی۔ اگر شاعری پر توجہ دیتے تو کہیں کے نہ رھتے۔
ابن خُلدون نے کہا تھا کہ ایک ادیب کے لیے اس کے خیال میں پوشیدہ معانی پانی کی طرح ھوتے ہیں اور اُس کا اسلوب یا جس انداز میں وہ اُسے اپنے قاری کے سامنے پیش کرتا ہے وہ پیالے کی ماند ہے۔ یہ ادیب پر منحصر ہے کہ وہ اُس پانی کو مٹی کے پیالے میں پیش کرتا ہے یا زمرد کے پیالے میں۔ کیونکہ پانی تو وہ ھی رھنا ہے۔ جیسے خیام کی رباعی اگر سونے کے ورق پر لکھی جائے یا پتھریلی زمین پر۔ اسکے معانی نہیں بدل سکتے۔
میں اس مضمون کو یہاں ھی ختم کرتا ھوں کیونکہ مجھے لگ رھا ہے کہ اب اس میں فلسفہ گُھس رھا ہے اور فلسفے کو دیکھ کر میری کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
اہلِ نظر دو عالم در یک نظر ببا زند
عشق ست و داؤ اول بر نقد جاں تواں زد
جو صاحبان نظر ہیں وہ دونوں جہانوں کو ایک ھی نظر میں ہار دیتے ہیں۔
یہ عشق ہے اور اس میں پہلے ھی داؤ میں جان کی نقدی گنوائی جا سکتی ہے۔

