Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imran Kharal
  4. Hum Khuda Ki Shan Dekhenge

Hum Khuda Ki Shan Dekhenge

ھم خدا کی شان دیکھیں گے

ڈاکٹر یونس خیال صاحب نے جس عمر میں انگلستان جانے کا سوچا اُس عمر میں لوگ اکثر حج پر جانے کا سوچتے ھیں۔ مگر چونکہ وہ بیگم کو بھی ہمراہ لے گئے تھے اس لیے انگلستان سے بھی کم از کم عمرے کا ثواب لے کر ضرور پلٹے ھوں گے۔ مجھے اپنے خیال کی تصدیق اُن کی کتاب کے بابِ اول کو ھی پڑھ کر ھو گئی۔ جب سفر کے دوران اُن کی دائیں جانب بیٹھا مسافر میناِ نغمہ زن (وائیٹ وائین) سے اٹکھیلیاں کر رھا تھا اور بائیں جانب بیٹھی ان کی خانمِ خانہ تسبیح گھما رہی تھیں اور یہ آبِ حیات کی موجودگی میں جوووووس پینے پر اصرار فرما رھے تھے

دیر سے اُٹھ کے کعبے آیا میر
جس کو چاہے خدا خراب کرے

ڈاکٹر صاحب کی تحریر سے یہ بات تو عیاں ہوتی ہے کی ہر شریف آدمی کی طرح بیگم سے ڈرتے ھیں اور جب وہ یہ لکھتے ھیں کہ "میری بیگم بہت اچھی سامع ھیں۔ خاص طور پر جب میری بات کے دوران وہ سو جاتی ھیں اور بعض دفعہ تو میں اُن سے وہ باتیں بھی کر لیتا ھوں جو جاگتے میں کرنا ممکن نہیں ھوتا"۔ تو ھمارے خیال کی تصدیق ھو جاتی ہے۔

ہرچند کہ ڈاکٹر صاحب نے کہیں بھی اپنی تحریر کو مشکل نہیں ھونے دیا۔ مگر پھر بھی کہیں کہیں اُن کے اندر کا استاد ضرور ظاہر ھوتا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ھیں کہ "ہمارے اور پڑھے لکھے معاشروں میں یہ ھی تو فرق ھوتا ہے کہ ھمارے پاس یہ سمجھا جاتا ہے کہ ھم ھی دنیا ھیں جبکہ پڑھے لکھے لوگ اپنے آپ کو دنیا کا حصہ سمجھتے ھیں"۔

ڈاکٹر صاحب کی تحریر اپنے اوج کمال پر تب پہنچتی ہے جب وہ انگریزی کے شاعر ولیم وڈز ورتھ کے قصبے میں جاتے ھیں اور ایک بڑے شاعر کا ایک عظیم شاعر سے مکالمہ ھوتا ہے۔

"محبت، لطافت و فطرت کے شاعر"

ایک جگہ ڈاکٹر صاحب نے ضمیر جعفری کی نظم "اک ریل کے سفر کی تصویر کھنچتا ھوں" کے کچھ اشعار درج فرمائے ھیں۔ عنوان پڑھ کر حضرت جوش ملیح آبادی (رح) کی نظم "جنگل کی شہزادی" یاد آگئی۔ جس کے پہلے شعر کا یہ مصرعِ ثانی ہے

پیوست ہے جو دل میں وہ تیر کھنچتا ھوں
اک ریل کے سفر کی تصویر کھنچتا ھوں

اور جب حضرت جوش(رح) یاد آ جائیں تو میر انیس اور مرزا دبیر کے اساتذہ خلیق و ضمیر بھی یاد نہیں رھتے۔ جعفری صاحب بچارے کہاں یاد رھتے۔

صاحبِ کتاب نے اپنی ایک عزیزہ "ڈاکٹر زریں" کا ذکر بار بار اور بہت محبت و شفقت سے کیا ہے۔ نہ جانے کیوں "زریں" نام پڑھ کر مجھے ایران کی عظیم انقلابی شاعرہ زریں تاج (قرۂ العین طاہرہ) یاد آ گئیں جس کو علامہ اقبال نے خاتونِ عجم لکھا اور جس نے شہادت قبول کر لی مگر اپنے نظریات پر پوری استقامت سے کھڑی رھی اور آج اُس کے نظریات کی خوشبو پورے عالم میں پھیل گئی ہے۔ "چہرہ بہ چہرہ روبرو، کوچہ بہ کوچہ کوبکو، چشمۂ بہ چشمہ جوبجو"اسی غزل کا ایک شعر یاد آگیا

در دلِ خویش طاہرہ گشت و ندید جز تیرا
صفحہ بہ صفحہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تو بہ تو

(طاہرہ نے اپنے دل کا چکر لگایا، وہاں تیرے سوا کچھ نہیں رکھا

ہر صفحے پر، ہر تہہ میں، ہر پردے میں، تو ہی تو موجود ہے)۔

ڈاکٹر صاحب کے سفر نامے کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ھوتا ہے کہ یہ ایک عام سیاح کی داستانِ سفر نہیں بلکہ ایک عالم، ایک شاعر اور ایک استاد کا سفرِ علم و آگہی ہے۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب سے یہ گزارش ہے کہ اگر دوبارہ ایسے سفر کا موقع میسر آئے تو بیگم اور بیٹے سے پرہیز فرمائیں۔ کیونکہ یہ سفر تو اُن کے اپنے اس شعر کے عین مطابق تمام ھوا۔۔

بستی میں دن بھی قید کی صورت مجھے ملا
اور رات بھی گزاری فرشتوں کے درمیان

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan