Buzdil
بزدل
هم بزدل ہیں اور اس بات پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ ہر دل میں تھوڑا سا "بز" موجود ہوتا ہے۔ شاید ہمارے دل میں یہ "بز" تھوڑا زیادہ ہے اس لیے اس کا احساس بھی زیادہ ہے۔ ویسے ہم نے اپنی بزدلی کو کئی نام دے رکھے ہیں کبھی مصلحت پسندی کہتے ہیں تو کبھی دانش مندی۔ مگر بیگم صاحبہ کی حدتک تو ہم نے اسکو محبت کا نام دے رکھا ہے۔
اس بزدلی کا سب بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہم نے حق و باطل میں تمیز کرنا ترک کر دیا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے کہا تھا کہ اگر آپ حق کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے تو تاریخ کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ اس وقت آپ مسجد کے حجرے میں تھے یا طوائف کے کوٹھے پر۔ یہ پڑھ کر ہم نے سوچا کہ ہمیں تو تاریخ میں پہلے ہی کوئی دلچسبی نہیں تھی۔ اچھا ہوا اب تاریخ کو بھی ہمارے معاملات میں دلچسپی نہیں رہی۔ جہاں تک ایک مسجد کے حجرے اور طوائف کے کوٹھے کا تعلق ہے تو ان دونوں جگہوں پر ہم کبھی گئے ہی نہیں اس لیے دونوں کے بارے میں کوئی مستند رائے نہیں دے سکتے۔ بچا سوال حق کے ساتھ کھڑے ہونے کا تو بیگم ہمیشہ حق پر ھوتی ہیں مگر ہم کبھی بھی اُن کے ساتھ دل سے کھڑے نہیں ہوئے ہمیشہ خوف سے کھڑے ہوئے ہیں۔
ہر عہد میں لوگ خوف کی وجہ سے اپنے وقت کے یزید کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اس لئے اگر ہم خوف کی وجہ سے بیگم کے ساتھ کھڑے ہوگئے تو کونسی قیامت آ جائے گی۔ اس بزدلی کا ایک اور فائدہ جو مجھے ہوتا ہے وہ یہ کہ میرے گھر میں راوی ہمیشہ چین ہی چین لکھتا ہے۔ میں گھر میں داخل ہوتے ہی "مجھے ہے حکم فغاں" کا نعرہ لگاتا ہوں اور اپنے شب روز میں امن واماں پاتا ہوں۔ جب خانم خانہ کے مزاج کا درجہ حرارت بلند ھوتا ہے میں آتشی کا پیام بر بن کر دھونی رما لیتا ھوں اور جب تک مزاج یار برہم رھتا ہے، میں اپنے گیان دھیان میں لگا رہتا ہوں۔ اب سادھوؤں سے کوئی لڑنے تھوڑی آئے گا۔
یہ ہی طرز عمل ہم نے اپنے احباب کے ساتھ بھی رکھا۔ ہمارے وہ احباب جو صاحب سیف و سناں ہیں ہم اُن سے کبھی بحث نہیں کرتے۔ اگر ہم حق پر بھی ہوں تب بھی یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن تو حق کو غالب آ ہی جانا ہے ہمیں جلدی کس بات کی ھے۔ اس طرح جب احباب کے دو گروہوں میں تصادم ہو جائے تو ہم صلح کروانے نہیں جاتے۔ کیونکہ ہم اخبار میں روز پڑھتے ہیں کہ دو گروہوں کی لڑائی میں صلح کروانے والا مارا گیا۔
موت سے تو ہر کسی کو ڈر لگتا ہے پر ہمیں غیر طبعی موت سے زیادہ ڈر لگتا۔ کئی بار ایسا بھی ھوا ھے کہ ہمارے احباب نے جب ہمیں بزدل ہونے کا طعنہ دیا تو ہمارے دل میں بھی بہادر بننے کا خیال آیا۔ لیکن جب یہ احساس ہوا کہ شہید ہونے کے لیئے جان سے گزرنا پڑتا ہے تو ہم نے بہادر بننے کے خیال خام کو اپنے دماغ سے نکال باہر کیا۔ ملک، جٹ، رائے، آرائیں صاحب نے سچ کہا ہے، "بزدلی ہزار نعمت ہے"۔