Kahani Cafe Mein Dr. AB Ashraf Ki Mehak
کہانی کیفے میں ڈاکٹر اے بی اشرف کی مہک

یہ 20 اپریل 2025ء کی ایک سنہری شام تھی۔ پرہلاد کے شہر ملتان کے گلوریا جینز میں ایک دراز قد اور وجیہہ شخص داخل ہوا جو لمبی قلمیں، کلین شیو، سفاری سوٹ میں ملبوس، کالا چشمہ لگائے اور مسحور کن خوشبو میں رچا بسا تھا۔ اس کے داخل ہوتے ہی وہاں موجود سب کی نظریں بے اختیار اس جانب مبذول ہوگئیں۔ ایک عجیب سی مہک نے سب کو مہکا دیا۔ کہانی کیفے کی نشست گاہ میں نعیم اشرف، رانا محبوب اختر، ممتاز خان کلیانی، رابعہ نساء، ڈاکٹر آصف، زری اشرف، سجاد نعیم، خاور نوازش اور الیاس کبیر کو مہکتی فضا سے یقین ہوگیا کہ وہ پہنچ گیا ہے جس کے ہم سب منتظر تھے۔
معانقہ اور مصافحہ کے بعد اس گیانی نے بتایا کہ جب وہ عدم آباد کی طلسماتی فضا سے اس جہان میں آنے لگے تو دیکھا کہ اسلم انصاری گوتم کو ہی وعظ دے رہا ہے جسے سنتے ہی گوتم پر سرشاری طاری ہوگئی اور وہ نروان کے حصول میں مصروف ہوگیا۔ انصاری سے اجازت چاہی تو اس نے کہا "جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی"۔ میں خالد سعید کو بھی ساتھ لانا چاہتا تھا لیکن وہ آرٹس فورم کے گزشتہ اجلاس کی روداد لکھنے میں مصروف تھا جو زلف یار کی طرح طویل تر ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے مزید تاخیر کے باعث اجازت چاہی تو وہ اس بچے کے نام ایک اور خط لکھنے میں مصروف ہوگیا جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ سو میں نے وقت بچایا تاکہ جلد واپس آ کر خالد سعید سے تھال پر شاہ حسین کی کافی سنی جا سکے۔
کہانی کیفے میں آنے والے یہ مہا گیانی ڈاکٹر اے بی اشرف تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ آج ترکیہ جانے سے پہلے ملتان آنا چاہتے تھے کیوں کہ ملتان اور ملتانیوں سے ان کی محبت مثالی اور اٹوٹ ہے اور اسے وہ دوسرے جہان جا کر بھی کسی طور فراموش نہیں کر سکے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ اشرف صاحب کے سینے میں ایک شفیق، حلیم، وضع دار اور محبتی انسان کا دل تھا۔ (بعض ناگفتہ اور ناخوشگوار واقعات کے باوجود انھیں کبھی روگ جاں نہیں بنایا)۔ ان کی شفقت طالب علموں کے لیے ہمیشہ طمانیت اور شانتی کا باعث رہی۔ وہ بے ریا دوستوں کی طرح مل کر خوش ہوتے اور فراخ دلی سے حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ان کے مسلک میں ادیبانہ کروفر اور احساسِ تفاخر کسی طور نہیں تھا، حالاں کہ ہم نے اس شہر میں ایسے ایسے "مہاتما" بھی دیکھ رکھے ہیں جو ھمہ وقت بے سروپا نرگسیت کا شکار رہتے ہیں۔ لیکن اشرف صاحب کا معاملہ یکسر مختلف تھا۔ وہ ہمیشہ اپنائیت، محبت اور خلوص سے ملتے۔ وہ پہلی بار ملنے والے کو اسی انداز سے پیش آتے جیسے برسوں کا یارانہ ہو۔
کہانی کیفے کا اجلاس جاری تھا اور اشرف صاحب بول رہے تھے۔ پاکستان اور ترکیہ کی سیاست و سماج اور شعر و ادب پر ان کی گفتگو نے بہت لطف دیا۔ اس ملاقات کا اختصاص یہ بھی تھا کہ صرف وہ خود ہی محوِ گفتگو نہیں تھے بلکہ ہم طالب علم بھی شریک رہے۔ خوش کن بات یہ تھی کہ وہ بھرپور متوجہ اور منہمک رہے۔
رانا محبوب اختر نے ملک کے ممتاز محقق اور ناول نگار حفیظ خان کا اشرف صاحب کے بارے میں نہایت خلوص اور محبت سے لکھا گیا ایک تاثراتی مضمون پڑھا جس کے ایک ایک جملے سے اپنائیت جھلک رہی تھی۔ یہ مضمون حفیظ خان نے ملتان آرٹس کونسل کے تعزیتی ریفرنس کے لیے لکھا تھا لیکن وہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ملتان نہ پہنچ سکے تو رانا محبوب نے اسے کہانی کیفے میں پڑھا جسے سنتے ہوئے مضمون خواں اور سامعین کی آنکھیں کئی بار نمناک ہوئیں۔
آخر میں اشرف صاحب نے کہانی کیفے میں موجود اور لاموجود تمام دوستوں بالخصوص ڈاکٹر رابعہ کی میزبانی میں پیش کی گئی کافی کے لیے شکریہ ادا کیا۔
وہ تین گھنٹوں سے زائد پر محیط بیٹھک کے بعد ہم سب سے بغل گیر ہوئے تو سبھی دل گیر اداسی کی اتھاہ میں چلے گئے لیکن انھوں نے اپنی مخصوص دل آویز مسکراہٹ اور انصاری صاحب کے اس شعر سے ہمیں اس کیفیت سے باہر نکال لیا۔
ایک سبھا دل والوں کی، اک تان رسیلے لوگوں کی
شہر کے روشن رکھنے کو اتنا بھی اجالا کافی ہے
خوشبو رخصت ہوگئی لیکن اس کی مہک برقرار رہی اور شاید تب تک رہے گی جب تک دنیا میں استادانہ شفقت، علمی متانت، شخصی وقار، علم، حلم، نفاست اور شائستگی ہے۔
کہانی کیفے کے اس اجلاس میں ایک بڑی شخصیت سے دلچسپ اور علم افروز تصوراتی نشست ہمیشہ یادگار رہے گی۔

