Do Din Lahore Mein
دو دن لاہور میں
دو سال قبل عین انہی دنوں میں لاہور یاترا ہوئی تھی۔ اس کے بعد ٹریفک حادثے کی وجہ سے "چال چلن" میں قدرے توقف آ گیا تو پاؤں کا چکر بھی رک رک سا گیا۔ اب جب کہ مہربان معالج نے احتیاط کی تاکید کے ساتھ سیارگی کی اجازت مرحمت فرمائی ہے تو گویا "دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی"۔ برسوں سے لاہور میں قیام پذیر "ملتانی" دوست منتظر تھے۔
بالآخر وہ دن آ ہی گیا جس دن کے لیے دن گنے جا رہے تھے۔ یارِ بے ریا شکیل نے مشترکہ دوست رانا سہیل کی ہمراہی میں لاہور آنے کی اس طور دعوت دے ڈالی کہ انکار نہ ہو سکا۔ یہ اشتہا آمیز دعوت "فیض فیسٹول" سے اکتسابِ فیض تھی، سو انکار کا سوال ہی ناپید تھا۔ سو ہم درس اور دوست مختار کی مختاری اپنے اختیار میں لی اور لاہور پہنچ گئے۔ رانا سہیل ایک خوش گوار کن رسیا دوست ہیں۔ سو سفر میں موسیقی کی دھیمی آنچ سے قلب و نظر کے معاملے سلجھتے رہے۔
لاہور سے ذرا پہلے دوست اورنگ زیب نیازی کو مطلع کیا تو وہ خوش گوار حیرت اور بے یقینی کی کیفیت میں رہے لیکن آخر تابہ کے۔ سو ست بسم اللہ کہا اور گلہ بھی کیا کہ آنے سے پہلے بتایا کیوں نہیں۔
لاہور پہنچے تو شکیل اور وکیل نے دیدہ و دل فرشِ راہ کر رکھے تھے۔ رات زلفِ یار کی طرح طولانی اور وجود تکان سے لرزہ براندام تھا، اس لیے سونے میں ہی عافیت جانی۔
شکیل نے لاہوری صبحانے سے سیر یاب کیا۔ اسی دوران گیانی رانا محبوب کو ملتان کی بجائے لاہور میں ملنے کا کہا تو وہ خوشی سے نہال ہو گئے۔ اردو کے نیًرِ تاباں ناصر عباس نیّر نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ دونوں دوست علم کے ساتھ ساتھ حلم میں بھی ثروت مند ہیں۔ فی زمانہ ایسے لوگ خال خال ہی ملتے ہیں۔
یار نیازی کے ہمراہ الحمرا پہنچے تو "روشن جمالِ یار سے ہے انجمن تمام" تھی۔ ہر سمت رنگ باتیں کر رہے تھے اور خوشبو لہرا رہی تھی۔ ملک کے ممتاز ناشرین نے سٹال لگا رکھے تھے۔ متوازی سیشن جاری تھے۔ ایک سیشن الحمراء کی ادبی بیٹھک میں اصغر ندیم سید کی تین کتابوں کے حوالے سے تھا۔ جس میں ناصر عباس نیر شریکِ گفتگو تھے۔ گفتگو سنی تو محسوس ہوا کہ ایک عالم جب بات کرتا ہے تو جوئے علم کی روانی قابلِ دید ہوتی ہے۔ ایک سیشن زہرا نگاہ کی صدارت اور یاسمین حمید کی نظامت میں جوش ملیح آبادی کے شعر و فکرکے حوالے سے تھا۔ جس میں افتخار عارف اور معین نظامی کی گفتگو نے پورے ہال میں سکوت طاری کر دیا۔
اپنی تحریر و تقریر میں ملتان کی چس رس کو مہکائے اصغر ندیم سید سے علیک سلیک ہوئی تو وہ دیر تک اپنی ماں بولی سرائیکی میں ملتان اور ملتانیوں کے ادب اور سیاست پر بات کرتے رہے۔ ہم ملتانیوں سے مل کر ان کے چہرے پر طمانیت اور آنکھوں میں چمک در آئی تھی۔
الحمرا کے کیفے میں ناصر نیر، محبوب اختر، اورنگ زیب، اصغر، عامر سہیل، خلیل زادے (ارمغان اور علی) کے ساتھ طویل نشست ہوئی۔ شعر و ادب کی محفلیں اور سیاست و سماج کی راہداریاں۔۔ سب کچھ زیر بحث آیا۔ اٹکھیلیاں اور جملگی ساتھ ساتھ جاری رہیں۔
عکس پبلی کیشنز کے دوست محمد فہد نے لفظوں پر سحر طاری کرنے والے شاعر سرمد صہبائی سے ملایا اور ان کی کتاب "ماہِ عریاں" عطا کی۔ رانا محبوب کو گھر جانا تھا لیکن وہ وعدہ لیے بنا تب تک نہیں گئے کہ ان کے دولت کدے میں ہی قیام ہوگا۔
شام ڈھل چکی تھی۔ الحمرا سے باہر نکلے تو ڈاکٹر نیر کی شفقت و اشفاق مسلسل مہربان رہی اور وہ باغِ جناح کے کیفے میں دیر تک ساتھ رہے۔ وہاں ان سے دل کھول کر باتیں ہوئیں۔ معاصر ادب بالخصوص ناول پر ان کی گفتگو سیر حاصل تھی۔ وہ سب باتیں جو "میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے"۔ اسامہ اور علی سے مل کر اور بات کرکے اس لیے بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ ان میں بھی شعر و ادب سے دلچسپی نمایاں تر تھی۔ ورنہ عام طور پر ادیبوں کے بچوں میں لفظ و معنی سے شناسائی کم کم دکھائی دیتی ہے۔
رات ڈھل رہی تھی، باتیں جاری تھیں۔ تکان کے آثار نمایاں ہونے لگے تو نشست برخواست کرنا پڑی۔ یار نیازی نے کھانے کا کہا اور بار بار کہا لیکن کافی دیر ہو چکی تھی اور محبوب کے پاس بھی جانا تھا جہاں کا راستہ زلفِ یار کی طرح دراز تر تھا۔ سو ان سے معذرت چاہی اور اگلے دن ملنے کا وعدہ کیا کہ یہ وعدہ وفا بھی ہوگا۔
ڈاکٹر اصغر نے ہمراہی اور رہنمائی کا فریضہ بیک وقت ادا کیا۔ ٹریفک کی ہڑبونگ اور ہاؤ ہو کو جھیلتے پہنچے تو رانا محبوب منتظر تھے۔ کھلے دل سے خیر مقدم کیا۔ یہ ایک یادگار رات کا آغازیہ تھا۔ جس میں رانا محبوب نے اپنے رس بھرے اسلوب میں بتایا کہ ادبی ذوق کی منزلیں کیسے طے کیں۔ پُرکھوں سے فارسی شعریات کا شغف دان ہوا تو اسے جاگ لگائی اور اپنی لکھتوں کے چاروں اور روشنی بکھیر دی۔
رانا محبوب بول رہے ہوں تو کیفیت "وہ کہے اور سنا کرے کوئی" کے مصداق ہوتی ہے۔ جگ جہان کی تاریخ، تصوف، ترجمہ، ادب، فلسفہ اور سیاست و سماج پر باتیں ہوا کیں۔ رانا محبوب نے اپنی آزاد روی کی بدولت مرعوب کن سول سروس سے کنارہ کشی اختیار کی اور خاموشی سے گوشہ نشین ہوگئے لیکن قلم و قرطاس سے رشتہ استوار بلکہ مستحکم رہا۔ اس دوران اپنے مطالعے کو بے پناہ وسعت دی۔ "لوک بیانیہ اور سیاست"، "مونجھ سے مزاحمت تک" اور "سندھ گُلال" جیسے بڑے متون ادبی دنیا کو پیش کیے۔ مستقبل قریب میں اپنے چند نئے متون کی صورت گری سے آشنا کیا۔
رات تقریباً آخری سانسیں لے رہی تھی اور نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ آنکھ کھلی تو گفتگو اور ضیافت کی سرشاری طاری تھی۔ چند ساعتیں باقی تھیں اور مصروفیات کی طویل فہرست تھی۔ سو اجازت چاہی اور فکشن ہاؤس کے دوست رانا ظہور کے ہاں پہنچے۔ ان سے کچھ کتابیں خریدیں، کچھ انھوں نے عطا کیں۔ فہد کے عکس پر پہنچے۔ وہ ابھی نہیں آئے تھے لیکن نوفل موجود تھے۔ انھوں نے لذتِ کام و دہن سے آشنا کیا۔ تھوڑی دیر بعد فہد بھی پہنچ گئے تو ایک مختصر ملاقات میں بہت سی باتیں ہوگئیں۔ انھوں نے عکس کی مطبوعہ کچھ کتب عطا کی۔
دوست نیازی کافی دیر سے انتظار میں تھے۔ اس سے پہلے کہ ان کے میانوالی کا نیازی باہر آتا ہم پہنچ گئے کہ "ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا"۔ انھوں نے پُرتکلف کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ جس میں ان کا اخلاص بھی شامل تھا۔ تاخیر سے پہنچنے اور فوراً ہی واپسی کی اجازت چاہی تو انھوں نے برداشت کا مظاہرہ کیا۔ یہ بہرحال ایک واقعہ ہے۔
واپسی دوست رانا سہیل اور عزیزم ذیشان ظفر کی ہمراہی میں ہوئی تو تکان کا احساس نہ ہوا۔ پورا سفر ریشم کی مانند سرسراتے گزر گیا۔
لاہور میں گزرے دو دن یادگار بھی تھے اور خوش کن بھی جن کی مہک دوستوں سے آئندہ ملاقاتوں تک مہکاتی رہے گی۔