Physics Aur Falsafa
فزکس اور فلسفہ
کوانٹم فزکس نے گزشتہ ایک صدی سے جس طرح فزکس اور ریاضی کے میدان میں رہتے ہوئے فلسفے کے نئے نئے سوالات کو جنم دیا ہے، اس کی مثال تاریخِ علم میں کہیں نہیں ملتی۔ یہ سوال کہ، یہ کائنات جسے ہم دیکھ رہے ہیں، حقیقی ہے یا فقط نظر کا دھوکا، فلسفے میں تو بہت پرانا ہے، لیکن کوانٹم فزکس نے اس سوال کو معروضی تجربات کی روشنی میں دوبارہ اُٹھایا اور تاریخِ علم کے لیے وقت کے سب سے بڑے سوالات کے طور پر پیش کر دیا۔
کوانٹم فزکس کا سب سے مشہور تجربہ ڈبل سلِٹ ایکسپری منٹ ہے۔ ڈبل سلِٹ ایکسپری منٹ گزشتہ دس بارہ سال میں، یوٹیوب اور سوشل میڈیا کی وجہ سے عام لوگوں میں بہت مقبول اور مشہور ہوا ہے۔ اس تجربے میں ہم دیکھتے ہیں کہ روشنی کے فوٹان ہوں یا مادے کے الیکٹران، ہر دو طرح کے پارٹیکل صرف اُس وقت پارٹیکل ہوتے ہیں جب اُن کی پیمائش کی جا رہی ہو۔ یعنی جب کوئی سائنسدان یا کوئی کیمرہ یا کوئی اور آلہ اُنہیں دیکھنے لگ جائے، تو وہ پارٹیکل ہی نظر آتے ہیں نہ کہ ویو۔
اگر اُن کی پیمائش نہیں کی جا رہی، تو ایسے وقت میں وہ پارٹیکل نہیں بلکہ موج (wave) کی صورت میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ اتنا سادہ اور آسان ہے کہ کوئی بھی عام سا شخص یہ تجربہ گھر پر انجام دے سکتا ہے۔ اور سو سال سے یہ بات پوری تسلی کے ساتھ پایۂ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ ہاں! ایسا ہی ہے۔ جب پارٹیکلوں کی پیمائش کی جا رہی ہو تو وہ پارٹیکل ہوتے ہیں اور جب اُن کی پیمائش کا عمل روک دیا جائے تو وہ موج ہوتے ہیں۔
جب پہلی بار کوانٹم فزکس نے فطرت کا یہ مظہر (phenomenon) دیکھا تو سائنسدانوں نے اس کی تشریح (interpretation) کرنے کی کوشش کی۔ اور اُنہوں نے کہا۔
The act of measurement collapses the wave function of a particle
یعنی پیمائش کا عمل پارٹیکل کا ویوفنکشن کولیپس کر دیتا ہے اور اس لیے پارٹیکل موج کی بجائے پارٹیکل بن کر ظاہر ہوتا ہے۔
جب نیلز بوہر اور ہائزن برگ کی یہ تشریح یا اِنٹرپریٹیشن سامنے آئی، تو اس پر بھی طرح طرح کے سوالات اُٹھائے گئے۔ اِن سوالات میں سب سے دلچسپ سوال یہ تھا کہ
پارٹیکل کے کولیپس کا عمل کس مرحلے پر واقع ہوتا ہے؟
1۔ کیا پیمائش کرنے والے آلے میں یہ عمل پیش آتا ہے؟
2۔ یا جب پیمائش کرنے والا آلہ پارٹیکل کی معلومات وصول کر لیتا ہے، تو سائنس دان کی آنکھ تک پہنچنے سے پہلے راستے میں کسی وقت یہ کولیپس کا عمل واقع ہوتا ہے؟
3۔ یا سائنس دان کی آنکھ میں یہ عمل واقع ہوتا ہے؟
4۔ یا سائنس دان کے دماغ میں یہ عمل واقع ہوتا ہے؟
فزکس کی دنیا میں اِن سوالات سے اُٹھنے والے مسئلے کو "پیمائش کے مسئلہ (measurement problem)" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
دو سائنسدان، وان نیومین اور وِگنر نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ
"پارٹیکل کے ویو فنکشن کے کولیپس ہونے کا عمل سائنسدان کے دماغ میں پیش آتا ہے۔ " اس تشریح کو "نیومین وِگنر اِنٹرپریٹیشن" کہا جاتا ہے۔
1940 میں ایک نوجوان ماہرِ طبیعات ہیوایورٹ نے ایک نئی تشریح پیش کی اور کہا کہ دراصل ویو فنکشن کہیں بھی اور کبھی بھی کولیپس نہیں ہوتا۔ پارٹیکل کے ویو فنکشن کا مطلب ہے کہ پارٹیکل سُپر پوزیشن پر ہے۔ یعنی ابھی وہ کولیپس نہیں ہوا اور اس لیے پارٹیکل، پوری ویو پرابیبلٹی میں ہر ایک پوزیشن پر موجود ہے۔ اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ جب تک ہم نے نہیں دیکھا پارٹیکل ویو تھا اور ویو تو ایسی شئے ہے کہ وہ اپنے پورے امکان میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے، نقطہ اے پر بھی اور بی پر بھی اور سی پر بھی اور تمام نقاط پر، حتیٰ کہ لامتناہی نقاط پر۔
اور سپر پوزیشن میں ہوتے ہوئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ زمان و مکاں میں پارٹیکل کا اصل نقطہ یا مقام کیا ہے؟ اُس کے چونکہ لامتناہی مقامات ہیں، اس لیے دراصل حقیقتیں ہی لامتناہی ہیں۔ ہم چونکہ ایک حقیقت یا رئیلٹی میں رہتے ہیں اِس لیے صرف ہماری رئیلٹی میں کولیپسڈ نظر آنے والا ویو فنکشن، فقط ایک ہی رئیلٹی کا رزلٹ ہے۔ ہم چونکہ کائنات کی دوسری رئیلٹیوں میں جا نہیں سکتے، اِس لیے جان بھی نہیں سکتے کہ آیا وہاں کوئی دیکھنے والا موجود تھا یا نہیں اور وہاں ویو فنکشن کولیپس ہوا ہے یا نہیں؟ چنانچہ یہ کہنا کہ ویو فنکشن کولیپس ہی نہیں ہوتا زیادہ درست تشریح ہوگی۔
اب اگر آپ غور کریں تو یہ تمام تشریحات فزکس کو یکایک فلسفے کے میدان میں داخل کر دیتی ہیں۔ فلسفے کی پہچان یہ ہے کہ فلسفے میں اُٹھایا جانے والا ہر سوال ہمیشہ کسی حتمی جواب کے بغیر وجود رکھتا ہے۔ جونہی جب کبھی کسی ایسے سوال کا حتمی جواب مل جاتا ہے تو وہ سوال مزید فلسفے کا سوال ہی نہیں رہتا۔ جیسا کہ زمین گول ہے یا چپٹی، جب تک یہ سوال حل نہیں ہوگیا، یہ سوال فلسفے کا سوال تھا۔ اور جب حل ہوگیا اور پتہ چل گیا کہ زمین گول ہے تو یہ سوال فزکس کا سوال بن گیا اور فلسفے سے ہمیشہ کے لیے نکل گیا۔
فلسفے میں ہمیشہ ہی ہر سوال کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ جونہی وہ حل ہوتا ہے وہ کسی اور ڈسپلن کا حصہ بن جاتا ہے۔ چونکہ ویو فنکشن کے کولیپس ہونے کا سوال ابھی حل نہیں ہوا اِس لیے یہ ابھی فلسفے کا سوال ہے۔ بے شک اِس سوال کو اُٹھانے والے اور آگے بڑھانے والے فزکس کے لوگ ہیں لیکن یہ سوال اپنی ہر تعریف کے اعتبار سے فلسفے کا ہی سوال ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سوال کو اٹھا کر رکھنے والے ماہرینِ فزکس فلسفی بھی ہیں۔
اس کائنات میں موجود تمام مادہ ایٹموں سے مل کر بنا ہوا ہے، اور ایٹم الیکٹرانوں کی وجہ سے اپنی شکل و شباہت رکھتے ہیں۔ اب اگر الیکٹران ہی، جب تک کہ ان کو دیکھا نہ جا رہا ہو، ویو فنکشن کی حالت میں رہتے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ
کیا کائنات محض اس وجہ سے ہمیں بطور کائنات نظر آتی ہے کیونکہ ہم اِسے دیکھ رہے ہیں؟