Friday, 22 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Idrees Azad
  4. Main Patt Jhar Hoon

Main Patt Jhar Hoon

میں پت جھڑ ہوں

رات سے بارش ہو رہی ہے۔ جاڑا اپنے تمام تر حسن کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اَمرود کے خشک پتے گیٹ کے پاس بکھرے ہیں اور گھنے اَمرُود کے پیڑ میں ایک چڑیا ابھی تک بیٹھی اپنے جگنو کا انتظار کر رہی ہے۔ وہ بارش میں بھیگ رہی ہے لیکن اُسے تو جیسے اپنے ہونے نہ ہونے کا کچھ احساس ہی نہیں۔ جاڑا موسموں کا گُرو ہے۔ یہ وہ بُڈھا سنیاسی ہے جس کے دانا یانہ مشوروں سے بہار اپنےسپنوں میں رنگ بھرتی ہے۔

آج جاڑے کی پہلی بھیگی صبح تھی۔ شمال سے آنے والی یخ بستہ ہوائیں مسلسل کواڑوں کو کھٹکائے چلی جا رہی ہیں۔ یہ خوابوں کے دروازے پر ہونے والی موسم کی پہلی دستک ہے۔ نو بجے ذرا دیر کو بارش رُکی تو مَیں چھت پر چلا گیا۔ یہ علاقہ کسی جنگل کی طرح گھنے درختوں سے ڈھکا ہے۔ اسلام آباد کا نومبر پت جھڑ کے حُسن سے مالا مال ہوتا ہے۔ یہ پیڑوں کے لباس بدلنے کا موسم ہے۔ سڑکیں خشک پتوں سے بھر جاتی ہیں۔ ہمارے گھر کے عقب میں جنگل کے بیچوں بیچ سے ایک بہت پتلی سی پکی سڑک پارک تک جاتی ہے۔

یہ میرا پسندیدہ پارک ہے۔ اِس سڑک پر لوگوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے سڑک خشک پتوں سے بھر جاتی ہے۔ چھت سے سڑک نظر نہیں آتی، بھاری پیڑوں نے اُسے چھپا رکھا ہے۔ میں، تحفے میں ملی نئی گرم شال اُوڑھے دیر تک چھت پر کھڑا رہا۔ جنگل کی خوابناکی میں کھویا، گیلاپے کے بوجھ سے ٹوٹتے پتوں کی آخری سسکیاں سنتا رہا۔ پارک میں کوئی نہیں تھا۔ جھولے آپ ہی آپ جھول رہے تھے۔ جیسے اُن پر نہ نظر آنے والی پریاں بیٹھی ہوں۔

لیکن مجھے وہ سفید کپڑوں، گلابی پروں والی پریاں دکھائی دے رہی تھیں۔ بارش نہیں تھی، لیکن بُوندا باندی مسلسل جاری تھی۔ میں نے سگریٹ سُلگا لی۔ آسمان پر کسی کسی وقت بادل گرجتے، کبھی ہوا تیز ہو جاتی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اِن خنک ہواؤں کی سرگوشیوں میں کچھ پیغام چھپے ہیں۔ یہ خنک ہوائیں جوہر کاروں کی طرح شاخ شاخ دستک دیتی، اور کان کان دھمکیاں اُنڈیلتی پھرتی ہیں۔ کچھ کہہ رہی تھیں۔ ایک سرگوش سرسراہٹ میرے کانوں سے ٹکرائی۔

"میں پت جھڑ ہوں۔ میرے آنے سے بزرگ درخت ننگے ہو جاتے ہیں۔ ہریالی مُردہ ہو جاتی ہے۔ میرا رنگ زرد ہے۔ میں خُنک جمود کی فرستادہ، تمہیں پیغام دیتی ہوں کہ اپنے اپنے کواڑ بند رکھنا۔ میں سارے سبزے کو مِٹانے کے لیے آئی ہوں۔ اپنی شاخیں سُکیڑ لو، ورنہ ایک ایک کو ننگا کر کے ماروں گی۔ "

اب پھر بارش ہو رہی ہے لیکن اس کی آواز نہیں سنائی دے رہی۔ کمرے میں لال دہکتے ہِیٹر نے شور مچا رکھا ہے۔ آج مَیں پارک نہیں گیا۔ صبح زیادہ تیز بارش تھی، اس لیے۔

Check Also

Faiz Ahmad Faiz, Faiz Festival Mein

By Mojahid Mirza