Falsafa Aur Falsafa e Science
فلسفہ اور فلسفۂ سائنس
فزکس کے ایسے پروفیسر حضرات جو وجودِ خدا کے مُنکر ہیں، تعداد میں اگرچہ بہت کم ہیں لیکن بدقسمتی سے اُن کے اینٹاگنسٹ (antagonist) رویے کی بدولت اُن کے چہرے میڈیا پر جلد مشہور ہوجاتے ہیں۔ یوں بھی ان کے موضوعات چونکہ زیادہ تر پاپولر فزکس کے موضوعات ہوتے ہیں اس لیے عامۃ الناس کو ہر طرف وہی دکھائی دیتے ہیں تو وہ یعنی عامۃ الناس یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ فزکس کے لوگ مجموعی طور پر خدا کے منکر ہیں، حالانکہ اس بات کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
پھر یہ لوگ عموماً خالص فزکس کے مباحث میں کم ہی شریک ہوتے ہیں۔ جن مباحثوں میں اور مناظروں میں لوگ ان کو کثرت سے دیکھتے ہیں، وہ فزکس سے نہیں بلکہ مذہب سے متعلق موضوعات ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب ایسے مباحث میں یہ گفتگو کرتے ہیں تو فزکس کے حوالے سے ان کا رویہ اتھاریٹیٹِو(authoritative) اور رعونت سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسے محفل میں باقی سب جہلا بیٹھے ہیں اور دنیا کی حقیقت صرف ان کو معلوم ہے۔ کسی اور کو معلوم ہوہی نہیں سکتی۔ حالانکہ اگر آپ مابعد الطبیعیات کے موضوع پر بات کرنے کے لیے آئے ہیں تو لازم ہے کہ آپ کے پاس فزکس کے علاوہ دو مزید ڈسپلنز کا بھی علم ہو۔
1۔ فلسفۂ سائنس (Philosophy of science)
2۔ تاریخِ سائنس (History of Science)
فلسفۂ سائنس اس لیے تاکہ آپ کو خود بھی تو معلوم ہوکہ تجرباتی سائنس (experimental science)کی حُدود کہاں پر ختم ہوتی ہیں اور نظری سائنس (theoretical science)کی حُدود کہاں سے شروع ہوتی ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہوگا تو آپ ہوا میں کراس فائر کرتے رہیں گے اور بحث کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ مزید یہ کہ آپ کو خود بھی تو پتہ ہو کہ سائنسی نظریات کو پیش کرنے کے بعد انہیں ثابت کرنے پر زور صرف نہیں کرنا ہوتا بلکہ انہیں غلط ثابت کرنے پر زورصرف کرنا ہوتا ہے، تب ہی سائنس، سائنس کہلاتی ہے۔ اس اصول کو پرنسپل آف فالسفکیشن (falsification) کہا جاتا ہے۔ یہ پوری دنیا کے اکیڈمیا اور مین سٹریم نالج کی طرف سے قبول کیا گیا اُصول ہے۔ اِسی اصول کی بناپر آئن سٹائن کی جنرل ریلیٹوٹی درست نظریہ ثابت ہوئی تھی اور اسی اصول کی بناپر سگھمنڈ فرائیڈ کا نظریہ ٔ تحلیلِ نفسی سُوڈوسائنس کے کھاتے میں ڈال دیا گیا تھا۔
جبکہ تاریخِ سائنس کا علم آپ کے پاس اس لیے ہونا لازم ہے، تاکہ آپ کو خود بھی تو معلوم ہو کہ کب کسی سائنسدان نے خالص تجربات کے ذریعے کچھ دریافت کیا اور کب کسی سائنس دان نے محض ریاضیاتی طورپر کچھ نتائج اخذ کیے جنہیں فی الاصل بعد میں تجربات سے گزاراگیا۔
اصطلاح میں ایسے لوگوں کو سائنٹزم (scientism) کے پیروکار یعنی سائنٹِسٹکس(scientistics) کہا جاتا ہے۔ سائنٹزم ایک کَلٹ(cult)، ایک عقیدہ اور ایک ضِد(stubbornness) ہے جس کے ماننے والے نہایت بدتمیز، بداخلاق، غیرمنصف، غیرمنطقی، اور بدمعاش ہوتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے وسط تک یہ لوگ ابھی پنپ رہے تھے اور اس لیے یوں کھُل کر بدمعاشی نہیں کیا کرتے تھے جیسے اب کرتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں یہ لوگ سردجنگ کے زمانے میں نمودار ہونا شروع ہوئے۔ لیکن امریکہ اور یورپ کے عامۃ الناس کے لیے ان کا اخلاقی طرزِ عمل اتنا مخدوش اور فرعونیت سے بھرا نہیں ہے جتنا مابعد نوآبادیاتی (post-colonial) اقوام کے ساتھ ہے۔
دراصل کالونیوں کے عملی خاتمے اوردوسری جنگِ عظیم کے بعد اپنے اپنے مرکزوں سے ٹوٹے ہوئے کچھ لوگ ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوئے تو سردجنگ کے ماحول میں ان کا استعمال منفی قوتوں کے لیے آسان ہوگیا۔ پوسٹ کالونیل سامراجیت کے تحفظ کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اِن لوگوں کو سماجی کاموں کے نام پر کچھ فنڈز فراہم کرنا شروع کیے، تاکہ کالونیوں کو اُن کے اپنے پیسے خودبراہِ راست استعمال کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
استعمار نے تمام سابقہ کالونیوں (خصوصاً افریقہ اور پاک و ہند) میں نان گورنمنٹ آرگنائزیشنین (NGOs) قائم کیں جوملٹی نیشنل کمپنیوں کے سی ایس آر(Corporate Social Responsibility) پر چلتی تھیں اورچلتی ہیں۔ سی ایس آر کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ان آبادیوں کو کہ جن کے وسائل اور ذرائع سے وہ اپنے بزنس چلاتے ہیں، براہِ راست سماجی کاموں کے لیے پیسے دینا بند کردیے اور اس کی جگہ یہ نظریہ اختیار کیا کہ چونکہ جن علاقوں کے ذخائر ہم استعمال کرتے ہیں، ان کا ہم پر حق تو ہے، لیکن اگرپیسہ ہم انہیں براہِ راست دیں گے تو ان کے سردار وہ پیسہ کھا جائیں گے۔ چنانچہ ایسی فاؤنڈیشنیں قائم کی جائیں جو اُن مخصوص علاقوں میں فلاح و بہبود کے کام انجام دیں۔ یہ خیال بظاہر جتنا خوبصورت تھا، بباطن اتنا ہی منفی، بُرا اور بھیانک تھا۔
چند ہی دہائیوں میں تمام سابقہ کالونیوں میں ایسی این جی اوز پھیل گئیں۔ یہ لوگ کسی بھی وطن کے محب وطن نہیں ہوتے۔ نہ ہی کسی آئیڈیالوجی یا مرکزیت سے ان کو کوئی لگاؤ ہوتاہے۔ بلکہ آئیڈیالوجی کوئی بھی ہو، ان کے لیے نہایت ناپسندیدہ چیز ہے۔ یہ، یوں تو بالخصوص مابعد جدیدیت(post-modernism) کی پسندیدہ ترین چیز ہے اور اس نعرے میں لامرکزیت کے قیام سے جس قسم کی انسانیت کو سامنے لانا مقصود دکھائی دیتاہے، وہ بادی النظری میں فلاحِ انسانیت ہی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اپنے ماحول، وطن، اقدار، سماج، ثقافت اورروحانی مراکز سے جس لاتعلقی کا اس نظریے کے ماننے والوں میں اظہار پایا جاتا ہے، وہ نہایت خشک، روبوٹک، ظالمانہ، بے روح، بے رحم اور سفاکانہ ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان میں این جی اوز کی بھی کمی نہیں اور اس قسم کی بابعد نوآبادیت جدیدیت (post-colonial modernism) کے چاہنے والے بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ لیکن خوش قسمتی سے جمہورکے اجتماعی اذہان کو یہ لوگ ابھی تک اتنا متاثر نہیں کرسکے جتنا انہوں نے سوچاتھا کہ یہ کرلینگے۔ ہمارے ہاں فزکس، اینتھروپولوجی، سوشیالوجی اور انگریزی ادب کے شعبہ جات میں ان نظریات کے حامل پروفیسر حضرات کوئی لگ بھگ تین چار فیصد کی حدتک پیدا ہوچکے ہیں۔ نتیجتاً ایسے طلبہ بھی جو آئندہ پھر استاد بن جاتے ہیں پیدا ہورہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے علاوہ یہ لوگ عدالتوں میں ججوں اور وکیلوں کی صورت بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان دوچار جگہوں کے علاوہ یہ لوگ باقی شعبوں میں اتنے زیادہ موجود نہیں ہیں۔ البتہ عامۃ الناس میں جہاں خال خال یہ لوگ آپ کو مل جائیں گے، وہ قوم پرستوں کے گروہ ہیں۔ مثلاً پنجابی، سرائیکی، سندھی، کشمیری، بلتی یا پشتون قوم پرستوں کے گروہوں میں یہ لوگ نستباً زیادہ موجود ہیں۔
میرا تعلق چونکہ درس و تدریس میں فلسفہ اور فلسفۂ سائنس، خصوصاً فلسفۂ فزکس کے ساتھ ہے اس لیے میری مُڈبھڑ اکثر ایسے صاحبان کے ساتھ رہتی ہے۔ ایسی ہی ایک مڈبھڑ کے بعد مجھے خیال آیا کہ ان احباب کو وجود خدا جیسے غیرسائنسی موضو ع پر بات کرنے کے لیے صرف فزکس کے مطالعہ پرہی بھروسہ نہ کرنا چاہیے، بلکہ ضروری ہے کہ یہ لوگ فلسفۂ سائنس اور تاریخِ سائنس کا بھی علم رکھتے ہوں۔ وگرنہ یہ ہوتا رہے گا کہ فزکس اور تصوف جیسے علمی موضوعات پر بھی مذہبی مناظروں کی طرح بیکار کی چخ چخ جاری رہے گی اور کبھی کوئی علمی نتیجہ برآمد نہ ہوسکے گا۔