Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hussnain Nisar/
  4. Kamzor Parliament

Kamzor Parliament

کمزور پارلیمنٹ

پاکستان کو آج جو بھی سیاسی اور معاشی مسائل درپیش ہیں، ان کی اہم وجہ ہمارے جمہوری نظام میں ایک عرصے سے ہونے والی مداخلتیں ہیں۔ چاہے یہ مداخلتیں کسی ایک لیڈر کو اس نظام سے باہر رکھنے کے لئے ہوں یا کسی دوسرے لیڈر کو نظام میں انسٹال کرنے کے لئے۔ اکثر اوقات یہ دونوں کام اکٹھے بھی ہوتے رہے ہیں۔ پھر ایسی براہِ راست مداخلتیں جس میں جمہوری نظام کو ہی پلٹ دیا جاتا ہے اور اسے ایک کٹھ پتلی نظام بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔

جب ایسے منصوبے شروع کئے جاتے ہیں تو اُن میں اولین ترجیح ملکی مفادات نہیں بلکہ ذاتی اور ادارہ جاتی مفادات ہوتے ہیں افسوس کہ ان مداخلتوں سے نقصان صرف ملک، جمہوری نظام اور جمہوری نظام کے تحت کام کرنے والے سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔ سیاستدان بھی ان مداخلتوں کے ذمہ دار ٹھہرائے جانے چاہئیں کہ اِن میں سے ہی کوئی نہ کوئی ان مداخلتوں میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔

اس سے سیاست اور جمہوریت میں ایک اور مسئلہ یہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ سیاستدان یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ کامیابی کا راستہ اچھی کارکردگی، ملکی مفادات کو ترجیح بنانے، گڈ گورننس، عوام کو ڈلیور کرنے اور ریلیف بہم پہنچانے کے بجائے ذاتی اور ادارہ جاتی مفادات کی حمایت میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس سے حکمراں بار بار آئی ایم ایف پروگرام سے روگردانی کرنے اور اپنی معاشی چادر سے کہیں زیادہ باہر پاؤں پھیلانے جیسے اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں اور بنیادی اصلاحات جن میں معیشت کو دستاویزی بنانا اور اشرافیہ پر ٹیکس لگا کر ٹیکس نیٹ بڑھانا شامل ہے، بھی نہیں ہو پاتیں اور اس کی قیمت عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے۔

پاکستان میں سیاستدانوں کا سب سے زیادہ احتساب ہوتا ہے، یہ جملہ کافی حد تک درست بھی ہے اور غلط بھی۔ درست اس لئے کہ جتنا آسان یہاں کسی بھی سیاستدان پر نیب کیس بنا کر اُسے گرفتار کرنا اور اُس کی پگڑی اچھالنا ہے، اُس پر کوئی بھی الزام لگا کر اُسے عدالت سے نااہل کروانا ہے، اُتنا آسان اور کہیں نہیں اور ہماری ملکی تاریخ میں یہ عمل بار بار دہرایا جاتا رہا ہے۔ اس کے برعکس عدلیہ یا افواج سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف ایسی کوئی بھی کارروائی حتیٰ کہ ان کے خلاف بات کرنا بھی ممکن نہیں۔

جبکہ تاریخی جائزے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان اداروں سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کو ہمارے جمہوری نظام میں سیاستدانوں سے زیاہ نہیں تو کم از کم سیاستدانوں کے برابر اثر و رسوخ حاصل رہا ہے۔ لیکن سیاستدانوں کا احتساب اسلئے مشکل بھی ہے کہ احتساب کے عمل کو مداخلتوں نے اتنا ناقص اور کمزور کر دیا ہے کہ ہر کیس سیاسی بن کر رہ جاتا ہے اور اب اس طرح کے احتساب سے سیاستدانوں کی عوامی مقبولیت میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور پھر کسی نئے منصوبے یا مداخلت کے لئے پرانے گناہ معاف کروانا یا نئے گناہ کسی کے سر تھوپنا بہت آسان ہے۔

سیاستداں حقیقی طور پر پاکستان کے جمہوری نظام کی تاریخ میں کمزور فریق رہے ہیں۔ جمہوری نظام کمزور ہونے کی وجہ سے ان سیاستدانوں کا احتساب عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے نہیں کر پائے، جو عمومی طور پر جمہوریتوں میں ہوتا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کے اندر بھی جمہوریت نہ آ سکی جس کے باعث پارٹیوں کے اندر سے نئی لیڈر شپ بھی اُبھر کر سامنے نہیں آ سکی۔ اس کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں لیکن جمہوری نظام کو اس نہج تک پہنچانے میں ان مداخلتوں کے کردار کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی اس حوالے سے سیاستدانوں کا اپنا کردار ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔

کامیاب جمہوریتوں میں اختلافات اور مباحث کو ایک ہی جگہ حل کیا جاتا ہے اور وہ ہے پارلیمنٹ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ بھی کسی معاملے پر اٹک جاتی ہے جیسے برطانیہ میں بریگزٹ پر جب پارلیمنٹ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی تو بورس جانسن نے خود الیکشن کی کال دے دی تھی تاکہ کوئی حتمی فیصلہ ہو سکے۔ اُس معاملہ میں بھی پہلی ترجیح پارلیمنٹ میں مسئلہ حل کرنا ہی تھی۔

ہم نے ایک تو اپنی پارلیمنٹ کو ہارس ٹریڈنگ سے بچنے کے نام پر پارٹی لیڈر کا ربڑ سٹمپ بنا دیا ہے اور دوسرا پارلیمان میں حل طلب معاملات کو عدالتوں میں لے جا کر اُن مسائل کو رات کی تاریکیوں میں پارلیمان سے باہر سیٹل کرنے کے چکر میں پارلیمان کو دوسرے اداروں کے مقابلے میں کمزور بنا دیا ہے۔ جب سیاستداں اپنے مسائل پارلیمان میں حل نہیں کر پاتے تو عدالتیں اور دیگر فورم وہ فیصلے کرنے لگتے ہیں جو خالصتاً پارلیمان کو کرنے چاہئیں۔

پاکستان اس وقت ایک نہیں بلکہ متعدد مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ملک میں جاری سیاسی بحران دیگر کئی بحرانوں کو جنم دے رہا ہے اُس کے باوجود ان سیاسی مسائل کو پارلیمان کے اندر حل کرنے کے بجائے دیگر فورمز پر پارلیمان سے باہر حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاستداں اپنے وقتی اور ذاتی مفادات کی خاطر ہمیشہ سے ملکی مفادات کو زک پہنچاتے آئے ہیں۔

پارلیمان ہی آئین تک میں ترمیم کی مجاز ہے۔ موجودہ سیاسی بحران اسی پلیٹ فارم پر حل ہو سکتا ہے۔ جمہوری نظام کی بقا اور تسلسل کا واحد راستہ یہی ہے کہ سیاستدان پارلیمان کے اندر مل بیٹھیں اور درپیش مسائل کا قابلِ عمل حل تلاش کریں۔ اگر مسائل جوں کے توں رہے اور انہیں پارلیمان کے باہر حل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی تو پارلیمان اور سیاستدان مزید کمزور ہو جائیں گے، جیسے ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔

Check Also

Dyslexia

By Khateeb Ahmad