Dushman Aur Bewafa Mein Farq
دشمن اور بے وفا میں فرق
ہماری نصابی کتابوں میں جس دشمن ملک کا ذکر ہے وہ ہندوستان ہے، فوجی تربیت کے دوران جس دشمن، کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ ہندوستان ہے اور ہمارے ذہنوں میں جس دشمن ملک کا خاکہ ہے وہ بھی ہندوستان ہے۔ افغانستان کو ہم نے کبھی اپنا دشمن نہیں سمجھا بلکہ الٹا ہم یہ سمجھتے رہے کہ افغانیوں پر ہمارے بے شمار احسانات ہیں لہٰذا انہیں ہمارے پاؤں دھو دھو کر پینے چاہئیں۔
پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد ہم نے افغان بھائیوں کی مدد کی، افغانستان میں جہاد کیا، اُن کے ملک کو سوویت یونین کے شکنجے سے آزاد کروایا، لاکھوں افغانیوں کو اپنے ملک میں پناہ دی، انہیں شناخت دی، کاروبار کرنے کا موقع دیا، وہ یہاں آئے اور پھلتے پھولتے گئے۔
لیکن اِس کے صلے میں ہمیں افغانستان سے کبھی ٹھنڈی ہوا نہیں آئی اور آج یہ حال ہے کہ ہر افغان ہمیں گالیاں دیتا ہے اور ہم سے اتنی شدید نفرت کرتا ہے کہ کرکٹ میچ کے دوران بھی یہ نفرت چھپائے نہیں چھپتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا افغانیوں کی نفرت جائز ہے؟ کیا ہمیں اِس نفرت کی وجہ کو قبول کر کے انہیں گلے سے لگا لینا چاہئے؟ ہم میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ افغانستان سے ہمارا رشتہ 1979 سے شروع ہوتا ہے۔ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا۔
حقیقت حال یہ ہے کہ پاک افغان تعلقات پہلے دن سے ہی مثالی نہیں رہے، 1947 میں افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور اِس کی وجہ وہ سرحدی تنازعات تھے جو برٹش انڈیا کے وقت سے چلے آ رہے تھے۔ 1978 میں افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب آیا، افغانی اسے انقلاب ثور، کہتے ہیں۔ اِس انقلاب کے نتیجے میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان برسر اقتدار آ گئی اور نور محمد تراکی سربراہِ حکومت بن گئے۔
اِس انقلاب کو کمیونزم کی فتح سمجھا گیا، گو کہ پارٹی نے علی الاعلان خود کو کمیونسٹ کہنے سے گریز کیا تاہم بعد میں انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ مارکس اور لینن کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے افغانستا ن کو جدید خطوط پر استوار کریں گے۔ سوویت یونین نے اِس حکومت کا بھرپور ساتھ دیا اور اسے بھاری فوجی امداد دی۔
تاہم بعد میں نور محمد تراکی کے نائب حفیظ اللہ امین نے انہیں قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا، افغانستان میں اِس حکومت کے خلاف مذہبی رجحانات رکھنے والے طبقات کی طرف سے بغاوت کی اطلاعات آنا شروع ہو گئیں، حفیظ اللہ امین نے سوویت یونین سے مدد کی درخواست کی، اُس زمانے میں چونکہ سرد جنگ اپنے عروج پر تھی لہٰذا سوویت پولٹ بیورو کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں افغانستان میں ایرانی طرز کا انقلاب برپا نہ ہو جائے۔
سوویت یونین کو یہ رپورٹ بھی ملی کہ حفیظ اللہ امین امریکیوں سے خفیہ ملاقاتیں کر رہا ہے، اس تناظر میں سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں، شدید لڑائی کے بعد حفیظ اللہ امین مارا گیا اور سوویت حمایت یافتہ ببرک کمال افغانستان کا حکمران بن گیا۔ یہاں سے پاکستان کی انٹری شروع ہوتی ہے، ہم امریکہ کے پٹھو، بن کر افغانستان میں کود گئے، اپنے ملک سے جہادی بھرتی کر کے افغانستان بھیجے اور پھر ایک ایسی جنگ شروع ہوئی جو ایک دہائی تک جاری رہی۔
لاکھوں افغان بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوان مارے گئے، در بدر ہوئے، اُن کا گھر بار اجڑ گیا، وہ پاکستان میں افغان مہاجر بن گئے، اُن کی نسلیں تباہ ہو گئیں۔ خدا خدا کر کے جب سوویت فوجوں کا انخلاء شروع ہوا تو ایک مرتبہ پھر افغانستان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی جس میں پاکستان نے اپنے پسندیدہ گروپوں کی حمایت جاری رکھی۔ 1996 میں طالبان نے زور پکڑنا شروع کیا اور قندھار سے اٹھ کر پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا، اِس فتح مبین، کا کریڈٹ بھی پاکستان لیتا ہے۔ اُس کے بعد نو گیارہ کا حملہ ہوا اور باقی تاریخ ہے۔
ہم جب یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان کو سوویت یونین کے شکنجے سے آزاد کروایا تو یہ بھول جاتے ہیں کہ افغانستان نے ہمیں ایسی کوئی درخواست، جمع نہیں کروائی تھی، ہم نے سرد جنگ میں ایک سپر پاور کے حکم پر افغانستان میں مداخلت کی، افغانستان میں تو انقلابی حکومت آ چکی تھی، وہ سوشلسٹ تھی یا اسلامی، اِس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے تھا، مگر ہم نے اُس حکومت کے خلاف اپنے جہادی تیار کئے اور افغانستان پر چڑھ دوڑے۔
اور آج یہ حال ہے کہ ہم افغانیوں کو "نمک حرام" کہہ رہے ہیں، اُن لوگوں کو جن کی تین نسلیں جنگ کی نذر ہو چکی ہیں۔ مگر تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے۔ افغانستان کی جنگوں میں پاکستان کا کردار ثانوی رہا ہے، اصل جنگی مجرم سوویت یونین اور امریکہ ہیں، مگر افغانیوں کی جو نفرت ہمارے لئے ہے وہ اِن دونوں ممالک کے لئے نہیں۔ ایک درخواست مجھے اپنے لبرل دانشور دوستوں سے بھی کرنی ہے کہ ٹھیک ہے پاکستان نے افغانستان میں مداخلت کی اور یہی افغانیوں کی نفرت کی وجہ ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ افغانی ہمیں گندی گالیاں دیں اور ہم خندہ پیشانی سے سُن کر کہیں کہ برادر بات تو ٹھیک کر رہا ہے۔
ہر معاملے میں پاکستان کو سو فیصد قصور وار سمجھنا اور اپنے ہی ملک پر لعن طعن شروع کر دینا بھی درست رویہ نہیں۔ ذاتی زندگی میں اگر کوئی کسی کو بے غیرت کہے اور وہ شخص حقیقت میں بے غیرت بھی ہو تو وہ یہ نہیں کہتا کہ میرے بھائی نے بات تو ٹھیک کی ہے، مجھے اِس کا منہ چوم لینا چاہئے۔ امریکہ، سوویت یونین، طالبان، افغانی جنگجوؤں اور افغانیوں کی انقلابی جماعت سمیت کوئی بھی دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہے، سب کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں، لہٰذا صرف پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔
افغان بھائیوں کو میرا مشورہ ہے کہ جس طرح آپ ہمارے خلاف جذبات کا اظہار کرتے ہیں اگر اِس آزادی اظہار کا استعمال اپنی استبدادی حکومت کے خلاف کریں تو شاید آپ کے ملک کا کچھ بھلا ہو جائے۔ پلان بی کے تحت بائی پاس روڈ پر بُرڑا نہر کے پشتوں پر رنگ بند کی تعمیر کا عمل جاری ہے، بھاری مشینوں کے ذریعے مٹی لاد کر رنگ بند کو 15 فٹ تک اونچا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے کی چیف انٹرنیشنل نامہ نگار کلیریسا وارڈ کا کہنا ہے کہ سیلاب میں نہ کہیں امدادی کارکن دکھائی دے رہے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو امداد مل رہی ہے، لوگوں کے پاس ایک وقت کی روٹی بھی نہیں ہے۔ اس موقع پر طاہر جاوید نے سیلاب متاثرہ کاشت کاروں کو مفت سولر پمپس فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ لال باغ سیہون میں سیلاب زدگان کی بستی کے باسیوں کا کہنا ہے کہ وہ دیہاتی لوگ ہیں، ساری زندگی بنیادی خوراک روٹی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اورنگی ٹاؤن آفس سے بورڈ آفس تک چلنے والی اس بس سروس کے ذریعے یومیہ 50 ہزار شہری سفر کریں گے۔ پانی سے فٹ پاتھ پر نالے بن گئے اور سڑکیں ندی نالوں میں بدل گئیں، پانی سے گاڑیاں ڈول گئیں جس کی وجہ سے ٹریفک بھی جام ہو گیا۔ ٹھٹھہ میں دریائے سندھ کا ریلا ساحلی علاقے جنگی سر اور سجن واری میں داخل ہو گیا، سرکاری اسکول اور بنیادی صحت مرکز سمیت مختلف عمارتیں زیر آب آ گئی ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام جشن کرکٹ میں بات چیت کرتے ہوئے انضمام الحق نے کہا کہ سپر فور کے میچ میں پاکستان کی سری لنکا سے فائٹ نظر نہیں آئی۔ کٹھمنڈو میں جاری ساف چیمپئن شپ میں ہفتے کو پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں آمنے سامنے تھیں۔ انہوں نے صدر پاکستان اور یونیورسٹی کے چانسلر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سینیٹ کے اجلاس میں خود شرکت کریں۔
جیل میں قید ایرانی فلمساز جعفر پناہی کو فلم نو بیئرز، کے لیے اسپیشل جیوری ایوراڈ ملا۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پاکستان ڈیفالٹ کرنے والے چار ممالک کی فہرست میں تھا ہم نے مشکل فیصلے کر کے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔