Aeen Ki Pasdari
آئین کی پاسداری
عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اسمبلیوں کی تحلیل اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے متعلق اپنے ایک حالیہ فیصلہ میں سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب نے صدر ڈاکٹر عارف علوی، سابق وزیراعظم عمران خان اور چند دوسروں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی سفارش کرتے ہوے فیصلے کیلئے معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا ہے۔
جج صاحب کے اسی فیصلے کی روشنی میں موجودہ حکومت کی طرف سے اس وقت غور کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین اور دوسروں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری اور بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے۔ اگر حکومت و پارلیمنٹ ایسا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب ہو گا، جس کی قانونی اور آئینی حیثیت کے متعلق ہمیشہ سوال اُٹھتے رہیں گے۔
عدم اعتماد کی تحریک کے دوران جو کچھ دیکھا گیا وہ میری دانست میں آئین کی خلاف ورزی کے زمرے میں تو ضرور آتا ہے لیکن یہ کیسے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کی غداری کا معاملہ بن گیا، میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ آرٹیکل 6 تو بنیای طور پر مارشل لاء اور فوجی ڈکٹیٹر شپ کا رستہ روکتا ہے اور اس کا کسی بھی لحاظ سے آئین کی خلاف ورزی سے کوئی تعلق نہیں۔
آئین کی اس شق کے مطابق وہ شخص اور اُس کی مدد و معاونت کرنے والا سنگین غداری کا مرتکب ہو گا جو طاقت کے استعمال یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرے، تخریب کرے، معطل کرے، التوا میں رکھے، کوئی اقدام کرے یا منسوخ کرنے کی سازش کرے۔ یہ سارا معاملہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ سے شروع ہوا۔ اُس رولنگ کیلئے قاسم سوری نے جو آئین کی تشریح کی وہ سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دی بالکل ویسے ہی جیسے آئے دن عدالتیں اپنے فیصلوں میں حکومتی اور قانونی معاملات میں مختلف اقدامات کو آئین اور قانون کی خلاف ورزی اور غیر آئینی قرار دے کر معطل اور منسوخ کرتی رہتی ہیں۔
اگر آپ پاکستان کے آئین کو پڑھیں تو ایک نہیں، دو نہیں کئی آئینی شقوں کی آئے روز کھلے عام خلاف ورزی ہوتی ہے اور ان خلاف ورزیوں میں حکومت، پارلیمنٹ، حتیٰ کہ عدلیہ بھی شامل ہوتی ہے۔ اگر کسی کیلئے عدم اعتماد جیسے سیاسی معاملے میں آئین کی خلاف ورزی اہم ہے اور اس وجہ سے اُسے آئین سے سنگین غداری گردانا جا سکتا ہے تو پھر آئین میں موجود اسلامی شقوں کی کھلی خلاف ورزی کو کیسے بھلایاجا سکتا ہے؟
سود جیسے کبیرہ گناہ کو ہمارا نظام تحفظ دے رہا ہے باوجود اس کے کہ آئین اس کے فوری خاتمہ کا حکم دیتا ہے۔ اگر سنگین غداری کا کیس بنانا ہے تو پھر پانچ دہائیاں گزرنے کے باوجود سودی نظام کو نہ ختم کرنے والوں اور رکاوٹیں پیدا کرنے والے تمام ذمہ داروں کے خلاف بنایا جائے۔ اگر سنگین غداری کا کیس بنانا ہے تو پھر اُن سب کے خلاف بنایاجائے جنہوں نے آئین کے حکم کے باوجود پاکستان کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق نہیں ڈھالا بلکہ الٹا غیر اسلامی قوانین بناتے اوراُن کا نفاذ کرتے رہے۔
اگر سنگین غداری کا کیس بنانا ہے تو پھر اُن تمام ذمہ داروں کے خلاف بنایاجائے جو آئین کے آرٹیکل 62-63 کی اسلامی شقوں پر عملدارآمد نہیں کرتے، جن کی منشاء یہ ہے کہ صرف باعمل اور باکردار مسلمان ہی ممبران پارلیمنٹ بن سکیں۔ ہمارا آئین تو یہ بھی کہتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سالانہ رپورٹوں کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا اور سفارشات پر عمل کیا جائے گا لیکن ایسا تو گزشتہ پانچ دہائیوں میں نہیں ہوا۔ تو کیا یہ آئین سے غداری کا کیس نہیں بنتا؟
آئین پاکستان تو ہر حکومتی ذمہ دار کو یہ حکم دیتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اسلامی ماحول قائم کیا جائے تاکہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں لیکن جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ سب اس کے برعکس ہے، اگر آئین سے غداری کا کیس بنتا ہے تو پھر یہاں بننا چاہئے۔ آئین پاکستان کو پڑھیں اور اپنے حالات کو دیکھیں تو پتا چلے گا کہ آئین کی اکثر شقوں کی ہم کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہیں۔
عدالتیں ہوں یا حکومت و پارلیمنٹ سب کوشش کریں کہ ہم آئین پاکستان کی ہر ہر شق پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ کسی ایک آئینی شق کو اہمیت دینا اور دوسری شقوں کو بھلا دینا دراصل آئین سے ایک ایسی بے وفائی ہے جس کی وجہ سے ہمارے حالات خراب ہیں اور نہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے نہ آئین کی پاسداری۔
آئین پر عمل کرنا ہے تو پھر پورے آئین پر عمل کریں۔ یہ اپنی پسند کی چند آئینی شقوں کو اہمیت دینا اور باقیوں سے سوتیلےپن کا برتائوکرنا وہ کھلا تضاد ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عمران خان کو اسی اصول کے تحت غدار بنایا گیا تو پھر کوئی بھی اس غداری سے نہیں بچ پائے گا۔