Pakistani Media (2)
پاکستانی میڈیا (2)
ہم تک قومی و بین الاقوامی سطح کی خبریں پہنچانے والے کٹ پتلی نیوز چینلز بھی کافی حد تک اپنے ہی مفاد کی گرد کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے یہاں اپنے چینلز کی رینکنگ کے علاؤہ شاید اور کچھ نہیں جس پر یہ کام کرسکیں۔ جہاں دیکھو ان کی رینکنگ آڑے آئی ہوتی ہے۔ خبروں کی نشریات ہوں، کوئی پروگرام ہو، کوئی ٹرانسمیشن ہو یا کوئی اور شو ہمارے خبروں کے چینلز کافی حد تک اپنی حقیقی ذمہ داریوں سے سبکدوش نظر آتے ہیں۔
یہ تو سراسرا سا احوال ہے اس کے علاؤہ ہماری خواتین اینکر پرسن کو دیکھ کر بندا پریشان ہو جائے کہ کس ملک کی نمائندان ہیں پاکستان کے یا کسی مغربی ملک کے، کیونکہ ان کے لباس وغیرہ کا یہی حال ہوتا ہے۔ کیا طریقہ کار ہونا چاہیے تھا سب بھلایا جاچکا ہے اب صرف یاد ہے تو رینکنگ اس کے عوض بھلے ہمارے ہاتھ سے ہماری اصلیت چلی جائے مسلہ نہیں! کوئی وقت ہوتا تھا PTV پر دن کی نشریات کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا کرتا تھا۔
آج دیکھ لیں جھوٹ سے ٹینشن دینے سے شروعات تو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر اختتام۔ ہم ہماری حقیقت سے منہ موڑ بیٹھے افسوس! آج خبریں سننے کے لیے ٹیلی ویژن آن کرو تو کیا دیکھنے کو ملتا ہے یہی کہ فلاں سیاست دان نے اسے یہ کہہ دیا اس نے وہ کردیا یعنی نہ عوام کی فکر نہ عوامی مسائل کے حل کی کوئی خیر خبر۔ فقط ہر سو آواز تو فکر اور پریشانی کی عوام کو ذہنی مریض بنانے کی۔ صحافی جو قوم کی ترقی اور اس کی تبدیلی میں اہم کردار رکھتے ہیں وہ آج اپنی ذمہ داریوں سے فرار نظر آتے ہیں۔ جہاں ان صحافیوں کو عوامی مسائل کے متعلق آوازِ حق بلند کرنی تھی وہیں یہ کٹ پتلیاں بن کر اپنے پسندیدہ سیاست دانوں کے گیت گا رہے ہوتے ہیں۔
اس میں بلکل دو رائے نہیں کہ ہر صحافی ایک جیسا نہیں یہاں ایسے صحافی بھی ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو خوب جانتے ہیں اور جان کی پرواہ کیے بغیر ملک دشمن عناصر کے خلاف لکھتے اور ڈنکے کی چوٹ پر بولتے بھی ہیں۔ لیکن افسوس ہماری کمپنیوں سے یہ برداشت ہی کہاں ہوتا ہے نتیجتاً قوم کے یہ حقیقی ہیرو ہمارے حق اور سچ کے علمبردار صحافی بھائی غائب کروا دیے جاتے ہیں۔
خبروں کے چینلز عوامی شغل اور اپنی رینکنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ شوز اور تہواروں کے حساب سے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ جس میں زیادہ تر ہماری خواتین اینکر پرسنز اپنے جلوے بکھیرتی ہیں۔ یہاں اینکر پرسنز کے لباس کا حال تو وہی ہے جو انہیں مغرب سے تشبیح دلواتا ہے۔ لیکن عقل حیرت کو تب پہنچتی ہے جب ان شوز وغیرہ میں بطور مہمان بلائے جانے والوں کو دیکھا جاتا ہے۔ کیا دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی چھچھورا سا ٹک ٹاکر جس کے فالورز زیادہ ہوں اسے بلایا گیا ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے پاس انتخاب کرنے کے لیے آپشنز ہی صحیح نہیں یا شاید کیا پتا کرنے والے افراد بھی ٹھیک نہ ہوں۔
اسلامی جمہوریہ ہونے کی نسبت سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوئی ادبی و اخلاقی موضوعات پر خصوصی نشریات ہوتی، علماء کرام سے اصطلاحی موضوعات پر سوال و جواب ہوتے۔ ان عجیب و غریب فنکاروں کی گفتگو سے تو بہتر ہے کہ قوم کے نوجوانوں کی تربیت کے لیے سیشنز منعقد کیے جاتے۔ لیکن افسوس! نہ ہماری ترجیحات اس طرح کی ہیں نہ شاید ہم ایسا چاہتے کہ اجتماعی طور پر یہ سب ہو۔