Muft Haath Aaye To Bura Kya Hai
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
موجودہ دور کہ جہاں مسلمانوں کے خلاف کفار سرگرم ہیں۔ وہیں کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں اس خلاف ورزی پر زور و شور سے عمل جاری ہے۔ جی ہاں آپ اور میں فلسطین میں ہونے والے اسرائیلی ظلم و ستم سے بخوبی واقف ہیں۔ یہ لڑائی فقط مذہب کی آڑ میں جاری ہے مسلمان بلکہ فلسطینی اپنے عقائد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اسرائیلی ہیں کہ کسی طرح انہیں ختم کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔
یہ صرف فلسطین اور اسرائیل کی لڑائی نہیں بلکہ یہ لڑائی یہ جنگ امتِ مسلمہ اور یہودیوں کی ہے، یہ لڑائی حق اور باطل کی ہے، یہ لڑائی حسینی اور یزیدی کردار کی ہے، افسوس مسلمانوں پر کہ وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کو تہنا چھوڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کے خلاف فقط یہودی ہی نہیں بلکہ ہر کوئی یہود و نصارٰی کے ساتھ سارے گڈ جوڑ کرنے کو تیار ہے۔ دنیا میں 57 اسلامی ممالک ہیں جن میں پاکستان، ترکی اور سعودی عرب کو ایک خاصا مقام حاصل ہے۔
پاکستان وہ ملک کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لبریز لیکن افسوس سوائے نمائش کے ہمارے ادارے کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ اداروں نے کچھ نہ کیا تو عام عوام میں جذبہ جاگا کہ یوں نہیں تو کسی اور طرح فلسطینوں کا ساتھ دیا جائے اور پھر یہاں سے شروعات ہوئی ان تمام مصنوعات/کمپنیز سے بائیکاٹ کی جو کسی نا کسی طرح اسرائیل اور وہاں کی افواج کو مدد یا امداد فراہم کر رہی ہیں۔ بہت اچھا عمل عوام سے جو ہوا وہ کیا۔ اس بائیکاٹ میں کافی حد تک کامیابی بھی دیکھنے کو ملی جس کے نتیجے میں ان کمپنیوں کا بہت واضح نقصان دیکھنے میں آیا جبکہ اس بائیکاٹ سے مسلم پروڈکشن کو کافی منافع ہوا اور ہو رہا ہے۔
حالیہ گزرے ہوئے چند ایام قبل گجرانوالہ کے علاقے مانوالہ چک نمبر 203 میں ایک واقع پیش آیا جس میں کوک کمپنی کی بڑی مژدہ گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ گاڑی کوک کی مشروبات سے لدی ہوئی تھی۔ گاڑی کا ڈرائیور حادثہ کی وجہ سے گاڑی وہیں چھوڑ کر رفو چکر ہوگیا پیچھے بھری ہوئی گاڑی اور پاکستانی عوام پھر کیا تھا! اس قوم کا بائیکاٹ گیا ڈرائیور کے ساتھ اس کے گھر۔ پیچھے یہ عوام اور مفت کا مال۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے عوام کا جم غفیر امڈ آیا ہے۔
مرد، بڑے، بڑھے، بچے جس کو جیسا موقع میسر آیا سب نے اس سے استفادہ کیا اور اسرائیلی مصنوعات پر خوب ہاتھ صاف کیا۔ پھر لوگ بھول گئے کہ ہم بائیکاٹ کر رہے ہیں یا یہ یہودیوں کا مال ہے۔ یہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ دشمن کا مال تھا لوٹ لیا اس میں مذائقہ کیسا۔ کسی حد تک یہ بھی ٹھیک ہے! لیکن یہ بھی تو دیکھا جائے جس چیز سے ہم نے دشمنی کی بنا پر منہ موڑا ہوا ہے اسے کسی صورت قبول کیوں کریں؟ یہ تو وہی بات ہوگئی شراب خریدو نہیں کہ حرام ہے مفت میں ملے تو سب ہضم۔ ایس میں غالب کا شعر یاد آتا ہے کہ:
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
اس گاڑی پر ہاتھ صاف کرنے میں ہماری ماں بہنیں بھی پیچھے نہیں رہی اور مردوں کے کندھوں سے کندھا ملا کر اس کام کو کارِ خیر جان کر حصہ لیا۔ اس واقعے کی ویڈیو کو دیکھا تو افسوس ہوا کہ ہم اخلاق کے کس مقام پر کھڑیں ہیں۔ دشمن کی بنائی ہوئی شے پر ہم کس طرح ٹوٹ پڑنے کو تیار ہیں بھلے پھر اس سے منہ ہی کیوں نہ موڑا ہوا ہو، بس مال مفت کا ہو۔
اس جگہ مال پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے کوئی شخص کسی کا لحاظ کرنے تک کو تیار نہیں بس یہی کوشش دیکھنے میں آئی کہ کسی طرح بوتل کا کریٹ ہاتھ آجائے اور ایک شخص نے کریٹ کے بنڈل میں سے کریٹ نکالنے کی کوشش کی تو اسے یہ بھی خیال نہ رہا کہ اس کے نیچے گرنے سے اگر کوئی جانی نقصان ہوگیا تو کیا ہوگا خدا کا شکر کہ جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن عوام کو فائدہ ضرور ہوا جو بنڈل گاڑی پر تھا اور کریٹ لینے میں مشکل ہورہی تھی اب وہ نیچے زمین بوس تھا۔ پھر کیا تھا اشرف المخلوقات اس طرح اس پر لپکے جیسے مکھیاں گندگی پر منڈلاتی ہیں۔
یہی نہیں جب کسی ایک آئے بندے سے کام نہ چلا تو اس نے دوسروں کو بھی فون کرکے اس عظیم کام میں پہنچنے کی دعوت دی، کسی نے خوب مال اکھٹا کرکے گھر تک پہنچنے کے لیے ساتھی بلوائے تو کوئی گاڑی سے اپنے ساتھی کو مال اتار اتار کر دیتا رہا۔ الغرض کہ کسی کو یاد نہ رہا کہ ہم نے یہودی مصنوعات سے منہ پھیر رکھا ہے، کسی کو یاد نہ رہا ہم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، کسی کو خیال نہ رہا کہ ہمارے اخلاق کا جنازہ نکل رہا ہے، کسی کو احساس تک نہ ہوا کہ ہم کس قدر گری ہوئی حرکت کر رہے ہیں۔ یعنی سب کے سب بس اپنے اندر کے گبر سنگھ کے ہاتھوں مجبور تھے۔
تاریخ یاد رکھے گی اس لالچی واقع کو کہ کس طرح مسلمانی کے علمبردار حق اور سچ کے دعویدار قوم کے چند افراد نے مل کر کس طرح یہودی مال پر ہاتھ صاف کیا۔ حق و سچ کے یہ علمبردار بھول گئے کہ اس عمل سے ہم کوئی بڑے نہیں بن رہے بلکہ ہماری وہ خصلتیں سامنے آرہی ہیں جن سے ہمیں بآسانی دشمن کمزور بنا سکتا ہے۔