Gardish e Doran
گردشِ دوراں
ایک وقت تھا جب شہر چھوٹے ہوا کرتے تھے۔ کچے گھروں پر مشتمل چھوٹے چھوٹے قصبے ہوا کرتے تھے۔ لوگوں کے پاس دن بھر کے کام کاج کے بعد جو وقت بچتا وہ یکجہ ہو کر گزارتے، ایک دوسرے کی دن بھر روداد سنتے اور اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو مل کر حل کرنے کی کوئی ترتیب بناتے۔ یعنی وہ دور جو ہمارے اجداد نے دیکھا، محبتوں والا دور، احساس والا دور اور ایک دوسرے کی تکلیف میں بے چین ہونے کا دور۔ وقت گزرتا گیا اور ضرورت کے تحت ایجادات ہونے لگیں، دیکھتے ہی دیکھتے ایسی ایسی اشیاء ایجاد ہوئیں کہ انسان دنگ رہ گیا۔
وقت نے رفتار پکڑی اور انسان کو جدید ٹیکنالوجی سے لبریز زمانے میں لا کھڑا کیا۔ وہ زمانہ جہاں ہر کوئی ایک دوسرے سے بیزار نظر آتا ہے۔ پہلے جہاں ایک دوسرے کی دکھ تکلیف میں سہارا بنا جاتا تھا وہاں آج ایک دوسرے کے لیے تکلیف وغیرہ کے سامان کیے جاتے ہیں۔ جہاں پہلے ایک بندے کی پریشانی سے پورا قصبہ بے چین رہتا تھا آج وہیں ایک خوشحال فرد کو پریشان کرنے کے لیے لوگوں کا ہجوم مواقع تلاش کرتا ہے۔ جہاں پہلے مکان کچے جبکہ دل سچے ہوا کرتے تھے وہاں آج مکان پکے تو دل بغض آمیز ہیں۔
اُس دور میں ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش نہیں کی جاتی تھی۔ آج جہاں ہر سہولت ہمیں موجود ہے وہیں ہم خالقِ کائنات کا شکر ادا کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگے ہوئے ہیں۔ آج ہماری کوشش رہتی ہے کہ کس طرح اگلے بندے کو نیچا دکھایا جائے۔ موجودہ دور میں اس قدر بے جا روی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے منہ پر خیر خواہ بنتے ہیں جبکہ پیٹ پیچھے کچھ اور ہی معاملہ ہوتا ہے۔ کیا ہے یہ؟ سراسر منافقت! غلطی وقت کی نہیں کہ یہ بدل گیا۔ غلطی انسان کی ہے کہ اس نے اپنے اندر نہ مکمل ہونے والی خواہشات کو جنم دے دیا، کسی کے پاس کوئی اچھی چیز دیکھی نہیں کہ رال ٹپکنی شروع۔
آج انسان کا نفس اس کے قابو میں نہیں رہا جس کو خود سے آگے دیکھا یا تو اس جیسا بننے کی خواہش پیدا کرلی ورنہ اسے گرانے یا نیچہ دکھانے کا کوئی منصوبہ ترتیب دینے لگے۔ پہلے لوگ ساتھ ہوا کرتے تھے پھر بھی ایک دوسرے کے لیے بری سوچ یا غلط نیت نہیں رکھتے تھے اور آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم ساتھ نہیں ہیں ہمارے کاموں نے ہمیں بہت مصروف کر رکھا ہے لیکن پھر بھی ہم موقع پاتے ہی ایک دوسرے پر نظر گھڑا لیتے ہیں، ایک دوجے کی تاڑ میں رہتے ہیں کہ کب عملی موقع ہاتھ آئے اور اپنی چال چلیں۔
یہاں دلچسپ بات تو یہ ہے کہ فائدہ کسی کا نہیں ہوا مقابل شخص کا تو نقصان ہوتا ہی ہے یا اگر خدا تعالیٰ کا کرم ہو اس پر تو وہ بچ جاتا ہے نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔ لیکن چال چلنے والا ضرور اپنی ہی چال میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ یہ وہ حال ہے جو مرغوں کی لڑائی میں ہوتا ہے۔ مرغا اپنے مخالف کو اس طرح ظاہر کرواتا ہے جیسے وہ اس سے انجان ہے لیکن ترچھی نگاہوں سے وہ موقع کی تلاش میں ہوتا ہے کہ کہاں وار کیا جائے۔ یہ کام ہم انسانوں کا نہیں ہم اشرف المخلوقات ہیں۔ آج دور کے بدلنے کے ساتھ ہم اپنا رتبہ بھی بھول گئے۔ افسوس!