Awam Hukmran Aur Diary
عوام، حکمران اور ادارے
ہم ایسے ملک کا حصہ ہیں جہاں ہم جیسے مڈل کلاس اور لور طبقے والے لوگوں کی مرہون منت چند لوگ ایوانوں تک رسائی حاصل کرکے ہم پر حکمرانی کرتے ہیں۔ ہم سے کیے وعدوں اور ہمیں دکھائے سنہرے خوابوں کی بدولت یہ ہم سے ہماری ہمدردی اور حمایت بٹورتے ہیں۔ ہم جو حالات کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں ایسے میں ان دھوکے باز لوگوں کے بہکاوے میں آکر انہیں منتخب کرلیتے ہیں۔ جس کے بعد یہ اپنے وعدے بھول کر اپنی مستیوں میں گم رہتے ہیں۔ اگر انہیں ان کے وعدے یاد دلانے کے لیے ڈھونڈو تو عید کے چاند کی طرح آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی سہولت کے لیے ملکی قوانین میں ترمیم کرتے اور پھر اپنی مرضی سے ہی سارے نظام کو چلاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ ہمارا ملک ہمارے سامنے ہے۔ ہم پر حکومت کرنے والے حکمران ہی نہیں بلکہ ہمارے ملکی اداروں میں کام کرنے والے ہر راشی ملازم جو اپنے کام نہ کرنے کی تنخوا اور کام کی رشوت لیتے ہوں اس قوم کے مجرم اور قابلِ سزا ہیں۔ یہ حکمران یہ ملازم عوام کی سہولت کے لیے ہوتے ہیں۔ حقیقتاً یہ عام عوام کے ملازمین ہیں۔ لیکن یہ ملازمین مخلصی سے خالی ہیں۔ ایسے لوگوں کے ہوتے ہوئے میرٹ کا خاتمہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
جس کا دل چاہتا ہے اپنی مرضی سے اپنے من پسند افراد کو سیٹوں کے حوالے کرتا ہے، جو فقط سیٹوں کے ہی حوالے رہتے ہیں اور کرتے کچھ نہیں۔ بلکہ اپنی ناجائز آمدنی سے اپنے آقاؤں کا بھی پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں کس طرح وہ نوجوان جو اپنی زندگی کا اہم ترین حصہ تعلیم و تربیت میں صرف کرتا ہے وہ کیسے اس محنت کا پھل حاصل کر پائے گا؟ ایسے ہی چلتا رہا تو کس طرح اس نوجوان کو اس کا حق ملے گا۔ نوجوانوں کو ان کا حق نا ملنے کی وجہ سے ہمارا نوجوان طبقہ اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو پہچاننے سے قاصر ہے۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں لوگوں کے جذبات کا قتل سرِ عام کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو نئے نئے طریقوں سے ٹارچر کرکے انہیں نیم پاگل کیا جاتا ہے۔ فقط عام عوام ہی نہیں اس پاگل بننے والی چکی میں وہ ملازمین بھی پِسے جاتے ہیں جو راشی افسران کی بات نا مان کر اپنا کام دیانتداری سے کرتے ہیں۔ ایسے ملازمین اور افسران بھی اپنے اعلیٰ حکام کی طرف سے دباؤ کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کا قتل کر بیٹھتے ہیں۔
اعلیٰ حکام کی ناجائز فرمائشوں کی تکمیل نا کرنے والے افسران اور ملازمین سب آہستہ آہستہ زندہ رہتے ہوئے بھی اپنی موت آپ مرتے جارہے ہیں لیکن کون پوچھے، کس کو پوچھے، کس کے در پر فریاد لے کر جائے اور کس سے انصاف کی فریاد کرے نا یہاں عدلیہ مکمل طور پر قابل اعتماد ہے نا یہاں تحفظ فراہم کرنے والے ادارے عوام اور اس ملک کے حقیقی محافظ ہیں۔ کیا یہ ہے سر سید کی فکر، کیا یہ ہے اقبال کا خواب اور کیا یہ ہے جناح کا پاکستان؟ نہیں بلکل نہیں!
سر سید کی فکر تو یہ تھی کہ ہم تعلیم جیسے ہتھیار کا استعمال کرتے ہوئے اپنے باطل کو زیر کرتے لیکن یہاں تو تعلیم کے حصول کے بعد ہم آپ ہی میں تعصب کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ناقابلِ اعتماد حکمرانوں اور افسران کی چالاکیوں کا شکار ہوکر ایک دوسرے کو زیر کرنے کی طاق میں لگے ہوئے ہیں، اقبال کا خواب اور جناح کا پاکستان تو وہ تھا جس کے متعلق انہوں کے بتایا کہ وہ پاکستان جہاں رہنے والے تمام لوگ برابر ہیں اعلیٰ حکام اور حکومت سب عوام کے لیے ہیں جو عوام کو ہر ممکن طریقے سے سہولت مہیا کرنے کے لیے تعینات اور منتخب کئے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو یہ راشی حکمران عام عوام کو ہی اپنا غلام سمجھتے ہیں۔
وہ پاکستان تو ایسا ہونا تھا کہ جس میں ہر کوئی چاہے وہ کسی بھی ذات، پات، رنگ، نسل اور بھلے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو شرعی اور قانونی طور پر ہر طرح سے آزاد ہو، جناح کی جدو جہد اور اقبال کے خواب کا یہ خطہ تو آزاد ہونا چاہیے تھا لیکن یہ نظریات کی بنیاد پر قائم ہونے والی جمہوری ریاست نا تو آزاد ہے اور نا ہی یہاں جمہوریت ہے، البتہ جمہوریت کے نام پر عوام کو بیوقوف ضرور بنایا جاتا رہا ہے۔ کسی حکمران، اعلیٰ عہدیدار یا افسر کو جب بھی موقع ملتا ہے تو عام عوام کو بیوقوف بنا دیتے ہیں۔ عوام کی سپورٹ اور اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھا کر عوام کا جذباتی قتل کردیتے ہیں۔
ہمیں آزار ہوئے تقریباً 77 سال ہونے کو ہیں، لیکن کیا ہم آزاد ہیں؟ ہم کہاں آزاد ہیں یہ کیسی آزادی جہاں ہمیں ہر چیز کا پابند کیا جائے یہ کیسی آزادی جس میں ہمیں ہمارے خیالات کا اظہار کرنے سے روکا جائے یہ کیسی آزادی کہ حق بولنے پر ہمیں غدار کہہ دیا جائے اور طاقت کے بل بوتے پر غائب کروا دیاجائے۔ یاد رکھیں جب تک کسی قوم کے صحافی اور لکھاری آزاد نہیں ہوتے تب تک اس قوم میں انقلاب نہیں آتا۔
ہمیں ہمارے دشمن آغاز ہی سے اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں اور انھوں نے ہمارے درمیان بھی اپنے کارندے بھی چھوڑ رکھے ہیں جو ہمارے پاک وطن کا نیاب پرچم اپنے جسم پر اوڑے ہمارے وطن کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ لیکن شاید یہ بھول گئے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والی یہ ریاست رہتی دنیا تک قائم رہے گی اور اس وطن میں سانس لینے والا ہر شخص عملی طور پر خود کو آزاد تسلیم کروائے گا۔