Qissa Aik Din Ka
قصہ ایک دن کا
آج پھر گھر میں ایک سرد جنگ جاری تھی۔ دفتر سے گھر آنے کے بعد میری بیوی کا وہی ہمیشہ کا رونا کہ آپ وقت نہیں دیتے سارا وقت دفتر میں لگا کر گھر آتے ہیں پھر گھر آ کے بھی ٹی وی کے آگے براجمان ہو جاتے ہیں یا موبائل میں منہ دیے بیٹھے رہتے ہیں۔ میرا کیا ہے سارا دن بچوں کو دیکھوں، شوہر کو دیکھوں۔ آج بھی اسی موضوع پر بحث ہوتے ہوتے بات کچھ زیادہ آگے نکل گئ اور میری بیوی اب کی بار رُوٹھ کر میکے ہی چلی گئ اور دو عدد بچے بھی میرے سپرد کر گئ۔
میں نے بھی غصے میں نہ روکا خیر سے دو دن سکون کے جو مل جاتے مگر یہ میری خام خیالی ہی ثابت ہوئی۔ بیوی کے جاتے ہی بچوں نے مجھے جو تگنی کا ناچ نچایا میں دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے بیٹھ گیا۔ ابھی تو اُسے گۓ محض کُچھ گھنٹے ہوۓ تھے اور عالم کُچھ یوں تھا کے گھر کا نقشہ اُلٹ پلٹ نظر آ رہا تھا۔ جوں توں کر کے بچوں کو سُلایا تو سر درد نے آ جکڑا شدید چاۓ کی طلب ہوئی تو ایک بار پھر بیوی یاد آ گئ۔
ہمساۓ کے لڑکے کو تھوڑی دیر اپنے بچوں کی نگرانی میں دینے کے بعد میں گھر سے نکل آیا ارادہ کُچھ یوں تھا کہ چاۓ کے ہوٹل پر رُک کر ذرا چاۓ پی لوں۔ لحاظہ میں گاڑی لیے گھر سے نکل گیا۔ چاۓ کے ہوٹل پر بیڑے کو چاۓ لانے کو کہا اور انتظار کرنے لگا۔ آج کا دن ہی خراب تھا دفتر میں باس سے ڈانٹ کے بعد ویسے ہی موڈ خراب تھا اُس پر سے گھر کا نان اسٹاپ ڈرامہ۔
ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ میرے برابر کُرسی پر لگ بھگ میری ہی عمر کا ایک آدمی آ بیٹھا۔ اور بھئ بیوی سے جھگڑا کر کے آۓ ہو کیا؟ وہ آدمی کافی خوش اخلاق دکھائی دیتا تھا۔ میں نے عجیب نظروں سے اُسے دیکھا مان نہ مان میں تیرا مہمان والا حساب تھا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا اتنے میں بیڑا چاۓ لیے آ گیا۔ تمہیں پتہ ہے مریم سے بھی میرا روز جھگڑا ہوتا ہے وہ آدمی پھر بول اُٹھا۔ کون مریم؟ بے ساختہ ہی میرے منہ سے نکلا۔
مریم میری زوجہ محترمہ وہ آدمی مسکراتے ہوۓ کہنے لگا۔ اوہ اچھا میں پھر ایک بار چاۓ کی چُسکی لینے لگا۔ آج مریم کی سالگرہ ہے دیکھو یہ گلاب اور کیک میں اُسے خوش کرنے کے لیے لے جا رہا ہوں اُسے گلاب بہت پسند ہے۔ اُس نے شاپر میرے آگے کر کے رکھ دیا۔ اب بھلا میں نے کیا کرنا تھا یہ سب دیکھ کر میں کیا کروں اگر اُس کی بیوی کی سالگرہ ہے جانے کیوں مجھے سب بتا رہا ہے؟
اِک دم سے مجھے کوفت طاری ہونے لگی یہاں اپنی زندگی کے مسئلے نہیں ہو رہے یہ صاحب اپنے ہی قصے لیے بیٹھے ہیں، سوچتے ہوۓ ایک لمبی سانس کھینچی اور اسی کے ساتھ بدمزہ چاۓ کا ایک گھونٹ بھی لیا۔ یہ بھی کوئی چاۓ ہے بھلا چاۓ تو ہوتی ہے جو میری بیوی بناتی ہے خوش ذائقہ، خوشبودار۔ ادھر وہ آدمی مسلسل اپنی بیوی کی شان میں قصیدے پڑھ رہا تھا بیوی کا غلام ہی لگ رہا تھا اور میں مروت کے مارے سُن رہا تھا، سُن کیا رہا تھا بس ہوں ہاں میں سر ہلا رہا تھا۔
چاۓ پینے کے بعد میں نے بھی غنیمت جانی اور اُٹھ گیا۔ میں ہوٹل سے باہر نکل کر گاڑی کی طرف آیا تو وہ آدمی بھی میرے پیچے پیچھے آ گیا۔ مجھے ذرا آگے تک جانا ہے مریم میرا انتظار کر رہی ہو گی کیا تم مجھے وہاں تک چھوڑ دو گے پلیز؟ میں اس نئی فرمائش پر تلملا کر رہ گیا پر خیر راستہ تو گھر کا میرا بھی یہی پڑتا تھا تو چارو ناچار رضامند ہو گیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
یقیناً تم شادی شُدہ ہو؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اور بچے؟ جی دو ہیں۔ ماشااللہ۔ مریم کو بھی بچے بہت اچھے لگتے ہیں۔ میں نے گردن گُھما کر اُس آدمی کی اور دیکھا جانے کیا تھا اُن آنکھوں میں میں سمجھ نہ سکا؟ بس یہی اُتار دو مجھے مریم کا گھر آ گیا ہے۔ میں نے گاڑی روک دی وہ آدمی میرا شکریہ ادا کرتا ہوا کیک اور گلاب کا شاپر اُٹھاۓ گاڑی سے اُتر گیا اور آگے چل دیا۔
چند ثانیوں کے لیے میں اُسے جاتا ہوا دیکھتا رہا یہ راستہ تو سنسان سا تھا کافی فاصلے تک کوئی عمارت وغیرہ بھی نظر نہیں آ رہی تھی تو آخر وہ آدمی یہاں کیوں اُتر گیا؟ مجھے تجسس نے آ گھیرا اور میں گاڑی کو سڑک کے کنارے کھڑی کرتا اُتر گیا۔ کُچھ فاصلہ طے کرنے پر جوں ہی میری نظر سامنے لگے بورڈ پر گئ تو میرے اندر سنسنی سی دوڑ گئ۔ شہرِ خموشاں، میں نے اُس آدمی کو قبرستان کے اندر جاتے دیکھا اور پھر دل کو مضبوط کرتا آگے چل پڑا۔
کچھہ دور وہ آدمی مجھے ایک قبر کے آگے صفائی کرتا نظر آیا۔ پھر اُس نے شاپر میں سے گلاب اور کیک نکال کر باہر رکھ دیا۔ میں بھاری قدموں کے ساتھ اُس آدمی کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ میری آہٹ پر وہ مڑا اور پھر مُسکراتے ہوۓ کہنے لگا میں جانتا تھا تم یہاں تک ضرور آؤ گے۔ ملو گے نہیں میری مریم سے؟ میری نظر سامنے لگے کُتبے پر پڑی مریم زوجہ قاسم اختر تاریخ پیدائش 2 جون 1992 تاریخ وفات 8 اپریل 2018 میں شُشدر رہ گیا۔
پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمایاں تھی۔ زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ پچھلے آدھے گھنٹے میں جتنی دیر بیزاری سے میں نے اُس شخص کی باتیں سُنی تھی اُس میں صرف ذکر اس ایک ذات کا تھا جو یہاں مدفن تھی اور میرے وہم و گُمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ جس ہستی کا ذکر وہ اتنی محبت سے کر رہا تھا وہ تو دنیا میں ہے ہی نہیں۔ میں سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔
اُس رات میرا اور مریم کا بہت جھگڑا ہوا تھا میں نے مریم پر ہاتھ بھی اُٹھایا وہ بہت روئی میں اُسے روتا چھوڑ کر سو گیا۔ مجھے خبر ہی نہ ہوئی کہ کب وہ گھر سے گاڑی لے کر غصے میں نکل گئ اور اسی غم و غصے کی حالت میں ریش ڈرائیونگ کرتے ہوۓ تیز رفتار ٹرک سے گاڑی حادثے کا شکار ہو گئ اور میری مریم موقع پر ہی جاں بحق ہو گئ اور اپنے ساتھ اُس ننھی کلی کو بھی لے گئ جس کو ابھی دنیا میں آنا تھا۔ یہ کہتے ہوۓ اُس کی آنکھوں سے آنسو روا تھے۔
میں نہیں جانتا تھا کہ میرے اُس ردِ عمل سے مریم اس قدر ذہنی اذیت کا شکار ہو جاۓ گی میری زندگی کی لُو تو اُس دن کے بعد سے ہی بجھ گئ۔ مریم اب کبھی واپس نہیں آۓ گی یہ سوچ ہی مجھے ہر وقت بے چین رکھتی ہے کہ مریم مجھ سے ناراض تھی وہ اس دنیا سے جاتے ہوۓ مجھ سے ناراض تھی، مجھے معافی مانگنے کا موقع بھی نہیں دیا اُس کی موت کی وجہ بھی نہ چاہتے ہوۓ بھی میں بن گیا۔
میں سوتا رہ گیا اور وہ دُنیا ہی چھوڑ گئ زندگی کسں قدر مجھ پر گراں گزر رہی ہے، کس طرح پچھتاؤے کے ناگ مجھے ڈستے رہتے ہیں کاش کہ میں مریم کو بتا سکتا۔ دیکھو نہ آج مریم کی سالگرہ ہے میں اُس کے پسند کے پھول لایا ہوں مگر وہ مجھ سے بات نہیں کرتی مجھ سے خفا جو ہے۔ زمین جیسے پیروں سے کھسک رہی تھی مجھے اُس شخص میں نہ جانے کیوں اپنا آپ نظر آنے لگا تھا۔
میں اُس شخص کی حالت کو زیادہ دیر دیکھ نہ پایا، تسلی کے دو بول بھی نہ بول سکا اور پلٹ آیا اپنا آپ مجھے کسی گہری کھائی میں گرتا محسوس ہو رہا تھا۔ شام میں بیوی کے ساتھ ہونے والا واقع میری آنکھوں کے سامنے فلیش بیک دکھانے لگا۔ اچانک ہی میرے دل میں کہیں وہمات اور ڈر و خوف نے جگہ لے لی میں نے گاڑی کو یو ٹرن لیا اور سیدھا اپنی شریکِ سفر کو اُس کے گھر سے لینے کے لیے پہنچ گیا۔
اور یہ بات میری بیان سے باہر ہے کہ جب میں اُسے وہاں لینے گیا تو اُس کی خوشی دیدنی تھی چہرے پر کہیں کوئی ناراضگی کے آثار نہ تھے۔ سسرالیوں سمیت میری بیوی نے بھی خوب مہمان نوازی کی اور سب سے بڑھ کر جو جھگڑا ہمارے درمیان ہوا تھا اُس نے اپنے گھر والوں کے سامنے میرا بھرم رکھ لیا تھا۔ عورت کا وجود موم سے بنا ہوتا ہے تھوڑی سی توجہ اُسے معتبر بنا دیتی ہے جتنا جلدی غصہ ہوتی ہیں اُتنا جلدی مان بھی جاتی ہیں۔
راستے بھر میں اُس شخص اور مریم کے بارے میں سوچتا رہا دل میں اُس کی مغفرت کی دُعا کرتا اور اُس کے شوہر کے سکونِ قلب کی دُعا کرتا اپنی بیوی کے ہمراہ گھر آ گیا۔ اور پھر جب ہم گھر میں داخل ہوۓ تو ہمساۓ کا لڑکا سر پر ہاتھ رکھ کر گھر سے بھاگا تھا ارے بھئ بچے نیند سے اُٹھ چکے تھے اور خوب سارا رونے کا شغل فرما چکے تھے اور اس پر گھر کی حالتِ زار دیکھ کر میری بیوی نے جن نظروں سے مجھے گُھورا تھا نظروں سے ہی سالم نگل لیا تھا اور اس کے آگے کیا ہوا ہو گا آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے گا۔