Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hira Umair/
  4. Log To Kahenge

Log To Kahenge

لوگ تو کہیں گے

مہوش اس کا وزن تو دیکھو پچھلی بار سے بھی پانچ گُنا بڑھ گیا ہے۔ یہی حال رہا نہ تو کیا بنے گا، اس کو کون بیاہے گا، اسے آج کل تو لوگوں کو دبلی پتلی نازک اندام خدوخال کی دوشیزہ چاہیے ہوتی ہے، اور تمہاری صنوبر دن بہ دن آٹے کی بوری بنتی جارہی ہے۔ ذرا اس پر بھی دھیان دو ورنہ سر پکڑے بیٹھی رہو گی۔ پُھپھو رضیہ نمکو پر ہاتھ صاف کرتے ہوۓ، سفاکی کی ساری حدیں توڑتی ہوئی، آج پھر اپنی بھابھی کو بیٹی کہ موٹاپے کا طعنہ دے رہی تھی۔

پاس کھڑی صنوبر میز کی صفائی کرتے ہوۓ اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔ بھابھی ایسے تو نہ کہے نہ، اللہ بہتر کرے گا۔ میری بچی کہ حق میں بھی آپ بس دُعا کرے۔ مہوش نے اپنے اندر اُمڈ آنے والے غصے کو دباتے ہوۓ تحمل سے اپنی بڑی نند کو جواب دیا۔ لو بھئی سہی تو کہہ رہی اب مانو نہ مانو تمہاری مرضی بھئی میری حریم بھی تو ہے صنوبر سے دو سال بڑی ہے۔

مگر تم ہی بتا دو صنوبر کے آگے وہ بلکل چُھپ سی جاتی ہے۔ خیر سے میری حریم اس سال اپنے گھر کی ہو جاۓ گی۔ اور دُعا کی بھی ٹھیک ہی کہی تم نے اگر سب ہم نے ہی کر لینا ہے تو یہ کیا کرے گی؟ رضیہ پُھپھو نے صنوبر کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔ اب میں بولوں گی تو تم کہو گی کے بولتی ہے، مگر تم خود ہی بتاؤ بائییس کی عمر میں یہ اپنے اس بھاری بھرکم وجود کہ ساتھ تیس کی نظر آتی ہے۔

اب تک اس کے لیے کتنے رشتے آچُکے ہیں؟ ہے کوئی جواب نہیں نہ؟ ارے جب کوئی رشتہ آیا ہی نہیں تو بتاؤ گی کیا۔ ابھی کل ہی کی بات لے لو افضل کی شادی کی تصویریں گھر میں سب دیکھ رہے تھے، تو حریم کی چچازاد کزنز بھی موجود تھی۔ صنوبر کی تصویریں دیکھی تھی، تو مانو اُن کی ہنسی کو بریک لگنا ہی بھول گیا۔ ایک تو جب پتہ ہے کہ پہاڑ جتنا بھاری بھرکم وجود ہے تو اپنے سائیز کے حساب سے کپڑے زیب کرے۔

لیکن نہیں شرارے گرارے ساڑھیاں پہنی تھی۔ یہ اُوڑھنے بچھونے پتلی دُبلی لڑکیوں پر ہی جچتے ہیں۔ اپنا مذاق خود بناؤ اور پھر گُھوریاں مجھ پر یوں ڈالوں جیسے سارے موٹاپے کا قصور تو میرا ہی ہے۔ قسم سے حریم تو شرمندہ ہی ہو گئی۔ کہنے لگی امی کل ہی جاۓ اور ذرا یہ بات صنوبر اور ممانی کو اچھے سے سمجھا آۓ کے آئیندہ وہ ایسے لباس پہننے سے گریز کرے یا پھر اگر اتنا ہی شوق ہے تو تصویریں نہ بنوایا کرے۔

خواہ مخواہ کوئی میری کزن کا مذاق اُڑاۓ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ وللہ پُھپھو رضیہ نے اداکاری اور ڈرامے بازی کے سارے ریکارڈز آج ہی توڑ ڈالنے تھے۔ رضیہ باجی مہربانی کر کے متوازن گفتگو کرے صنوبر میری بیٹی ہے۔ جیسے آپ کی بیٹی حریم ہے۔ میں بہت صبروتحمل اور تمیز کے ساتھ آپ سے رشتوں کا احترام کرتے ہوۓ پیش آرہی ہوں۔ لیکن آپ ہے کہ تمام حدود کو پار کیے چلے جارہی ہیں۔

اتنا تو خیال کرے کہ جس کہ بارے میں آپ بات کررہی ہیں۔ وہ آپ کی بھتیجی ہے۔ مہوش کا دل نند کی باتوں سے چھلنی ہو گیا تھا، اور صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہونے لگا تھا۔ خُدا جھوٹ نہ بُلواۓ بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے۔ ارے پُھپھو ہوں اس کی دشمن تھوڑی نہ ہوں میں تو یہاں نیکی کرنے آئی تھی کے اس کو یہ بتا دوں دو گلی چھوڑ کر لیڈیز جم کُھلا ہے۔

وہ بھی پہلے دو ماہ بنا فیس کہ میں نے سوچا ذرا بھتیجی اور بھاوج کے سر کا تھوڑا بوجھ ہلکا کردوں یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ مجھے ہی کھڑی کھوٹی سُنائی جارہی آنے دو آج رفیق بھای کو بتاؤں ذرا اُن کو کہ میرے ساتھ اس گھر میں کیسا سلوک ہوا ہے۔ رضیہ پُھپھو ٹوٹے ہوۓ اسپرنگ کی طرح اُچھلتی ہوئی کھڑی ہوئی تھی اور اپنے نہ نظر آنے والے آنسو کو دوپٹے سے صاف کرتی ہاتھ نَچا نَچا کر بڑبڑاتی ہوئی جا چُکی تھی۔

مہوش نے ایک نظر صنوبر پر ڈالی اس سے پہلے کے اُسے کُچھ کہتی وہ فوراً سے اپنے کمرے میں گُم ہو گئی۔ اُس نے کمرہ بند کیا اور آئیینے کے سامنے آ کے کھڑی ہو گئی۔ اور اپںے سراپے پر اُوپر سے لے کر نیچے تک نگاہ ڈالی۔ یہ موٹاپا اُس کے لیے ایک سزا بن چکا تھا۔ گیارہ سال کی عمر سے اُس نے اپنے آپ کو بس پھیلتے ہی دیکھا تھا۔ اسکول کے وقت میں اُسے سب موٹی کہہ کر پکارتے یا نت نۓ ناموں سے نوازتے۔

کالج کا دور آیا تو وہاں بھی لڑکیاں، ایسے ہی اُس کے موٹاپے کو مزاق کا نشانہ بناتی۔ پُھپھو رضیہ نے آج یہ سب پہلی دفعہ نہیں کہا تھا۔ وہ تو ہمیشہ ہی اُس کی ایسی تذلیل کردیا کرتی تھی۔ اور ہمیشہ ہی اپنی دبلی پتلی بیٹی حریم کے گُن گان گاتی رہتی۔ امی اور وہ ہمیشہ ہی ابّو کی وجہ سے خاموش ہو جاتے اور پُھپھو کو آگے سے کُچھ نہ کہتے کیونکہ اس کے بعد پُھپھو رضیہ جو ابّو کے سامنے ڈرامے رچاتی اور رونا پیٹنا ڈالتی وہ اسٹار پلس کے ڈراموں کو بھی مات دے دیتی تھی۔

اور پھر گھر میں ایک جنگ کا سما شروع ہوجاتا تھا۔ کئی بار تو پُھپھو کی ناراضگی کے ڈر سے ابّو مجھ پر اور امی پر برس پڑتے۔ لوگوں کی ان باتوں سے پریشان اب تو امی بھی مجھے کبھی ڈائیٹنگ کے نت نۓ طریقے بتاتی تو کبھی مختلف ٹوٹکے کرنے کا مشورہ دیتی۔ ایسا نہیں تھا کے میں نے خود کوشش نہیں کی۔ لیکن سب ناسود رہا۔ کئی کئی دنوں تک بھوکے رہ کر بھی دیکھ لیا تیل مسالوں کو بھی کھانے سے کم کردیا۔

آخری آپشن ڈاکٹر کا تھا۔ وہاں سے بھی مایوسی ہی ملی۔ پھر ایک وقت آیا، تھک ہار کر میں بیٹھ گئی میں جو تھی جیسی تھی، مجھے ایسا ہی اللہ نے بنایا ہے جسے مجھے قبول کرنا ہو گا وہ ایسے ہی کر لے گا اور اگر میری قسمت میں کسی کا ساتھ ملنا نہیں لکھا تو چاہے، کچھ ہوجاۓ نہیں مل سکے گا۔ ہمیشہ اپنے آپ کو تسلی دیتی اور پھر کوئیی نیا جملہ کوئی تضحیک آمیز الفاظ کسی کا مزاق اُڑاتا انداز دلبرداشتہ کر جاتا۔ 9-

ہر طرف سے مایوس ہو جانے کے بعد صنوبر نے اللہ سے رو رو کر اپنے لیے دُعائییں مانگنا شراع کردیں لوگوں کی ان باتوں پر جن سے اُسے تکلیف ہوتی تھی، اللہ سے اُن باتوں کو برداشت کرنے کے لیے صبر مانگا۔ اور ان دُعاؤں کا ثمر اُسے بہت جلد ابراہیم کی صورت میں مل گیا۔ حریم کی شادی خاندان سے باہر طے پائی تھی۔ حریم کی شادی میں پُھپھو سمیت حریم خود اِترائی اِترائی پھر رہی تھی۔

اور وہی اپنی خصلت سے مجبور صنوبر کو سُنانے سے نہیں چونکی تھی۔ میں تو کہتی ہوں بھابھی منت مان لینا اس بار کیا پتہ حریم کی شادی میں صنوبر کی بھی ڈوبی کشتی پار لگ جاۓ۔ پُھپھو نے نہ محفل کا لحاظ کیا نہ موقع محل دیکھا حریم کی مایوں والے دن وہ ایک بار پھر دل شکن باتیں کرنا شروع کردی تھی۔ دونوں ماں بیٹی نے ہر بار کی طرح اس بار بھی خاموش رہنے میں عافیت جانی۔

حریم کی شادی کے فوراً بعد حریم کی ساس اپنے چھوٹے بیٹے راحم کا رشتہ لے کر اُن کے گھر آ گئی۔ راحم اُن کا چھوٹا بیٹا تھا صنوبر کی طرح ہی ذرا بھاری جسامت کا مالک تھا۔ لیکن بہت سادہ لوح اور نیک طبعیت کا مالک تھا۔ راحم نے حریم کی شادی پر صنوبر کو دیکھا تھا، اور اُسے وہ پسند آئی تھی یہی وجہ تھی۔ اُس نے اپنی خواہش کا اظہار اپنی امی سے کیا اور وہ بیٹے کی خوشی کو دیکھتے ہوۓ فوراً رشتہ لے آئی۔

رضیہ پُھپھو سے جب حریم کی ساس نے صنوبر کے لیے خواہش ظاہر کی تو پُھپھو سمیت حریم کی حیرت کی انتہا نہ رہی پُھپھو نے کافی ٹال مٹول کرںا چاہا مگر حریم کی ساس جلد رشتہ لے جانے پر بضد تھی کیونکہ ارحم بہت جلد امریکہ واپس جانے والا تھا وہ صرف بھائی کی شادی کے لیے یہاں رُکا ہوا تھا۔ وہ امریکہ میں مقیم تھا اور وہی تعلیم کہ بعد نوکری کر رہا تھا۔

پُھپھو رضیہ نے خوب منہ بسورا لیکن کیا کرتی اپنی بیٹی کا معاملہ بھی تھا۔ چارو ناچار وہ حریم کی ساس کے ساتھ مہوش کے یہاں رشتہ لے کر آگئی۔ مہوش تو خدا کی اس حکمت عملی پر حیران تھی۔ دوسری جانب پُھپھو تو حریم کی ساس کے صنوبر پر وارے نیارے جانے پر جل بُھن رہی تھی۔ رشتہ طے ہوتے ہی مُنہ میٹھا کردیا گیا۔ اور یوں بات طے پائی کے چند دنوں میں سادگی سے نکاح کردے گے۔

اور صنوبر کا امریکہ جانے کے تمام انتظامات ہوتے ہی اُس کی رخصتی اور ولیمہ کر دے گے۔ صنوبر کو بھی راحم پہلی ملاقات میں ہی پسند آ گیا تھا۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کے جیسی وہ تھی۔ راحم بھی بلکل ظاہری طور پر ویسا تھا، زندگی میں آگے کبھی اُسے اس بات کا کمپلیکس نہیں ہوتا کے وہ موٹی ہے یا کسی طور راحم سے کم تر ہے۔

یوں راحم کے جانے سے پہلے اُس کا نکاح ہو گیا۔ اور پھر راحم اپنی امانت پاکستان میں چھوڑ کر امریکہ چلا گیا۔ راحم کے جانے کے کچھ دن بعد پُھپھو رضیہ کا گھر آنا ہوا۔ حسبِ عادت وہ پھر شروع تھی۔ چلو مہوش خیر سے تمہارے سر سے بھی بوجھ اُتر گیا دیکھو حریم کے نصیب سے تمہاری بیٹی کا بھی نصیب چمک گیا۔ چلو یہ بھی اچھا ہے، کے راحم کی بھی صحت اپنی صنوبر جیسی ہے۔

ورنہ تو اگر میرے داماد دانش کی طرح اسمارٹ سا ہوتا تو اُس نے بھی حریم کے جیسی ہی کوئی لڑکی پسند کرنی تھی۔ خیر سے حریم تمہاری اب جیٹھانی ہے۔ رضیہ پُھپھو اپنی باتوں سے صنوبر اور مہوش پر بہت کچھ واضح کرنا چاہ رہی تھیں۔ آج پُھپھو رضیہ کی باتوں کے جواب میں مہوش اور صنوبر دونوں نے بس مُسکرانے پر اکتفا کیا تھا۔

کیونکہ وہ جانتے تھے کے کُچھ لوگ اپنی انا کی تسکین اور دوسروں کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے دراصل اپنے آپ کو تسلی دے رہے ہوتے ہیں۔ پُھپھو رضیہ کا بھی ایسا ہی تھا، صنوبر کو اتنی جلدی اتنا اچھا رشتہ مل جانا اور پھر اُس کا امریکہ چلے جانا یہ سب باتیں دراصل اُنہیں زچ کر رہی تھیں۔ بس اس لیے وہ یہ سب باتیں کہہ رہی تھیں۔

لیکن آج مہوش کے چہرے پر پہلے جیسی والی نہ تو کوئی پریشانی تھی نہ ہی ناگواری اور صنوبر کے چہرے پر بکھرنے والی مُستقل مُسکراہٹ نے پُھپھو رضیہ کو تِلملانے پر مجبور کر دیا تھا۔ پُھپھو آپ بیٹھیے میں آپ کے لیے چاۓ کے ساتھ کباب سموسے لے کر آتی ہوں۔ صنوبرجانے ہی لگی تھی کے پُھپھو رضیہ نے روکا ارے نہیں بھئی یہ سب تم ہی کھاؤں کباب سموسے مجھ سے یہ سب ہضم نہیں ہوتا میں تو چلوں اب اپںے گھر اچھا چلو اللہ حافظ۔

پُھپھو رضیہ بدمزہ ہوتے ہوۓ کھڑی ہوئی اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔ اور اُن کے جاتے ہی اس بار صنوبر اور مہوش نے چھت پھاڑ قہقہہ لگا تھا۔ ہزار زبانیں ہزار باتیں کُچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا۔

Check Also

Bachpan Ki Eid

By Mubashir Aziz