Ghurbat
غُربت
مجھے بھوک لگ رہی ہے اماں کھانا دے دیں۔ مجھے بھی بہت بھوک لگ رہی ہے علی کی دیکھا دیکھی عائشہ بھی بھوک کا شور مچانے لگی۔ اماں کل بھی آپ نے چینی والی روٹی کھلانے کا وعدہ کیا تھا کہ سو کر اُٹھیں گے تو دیں گیں مگر آپ نے نہیں دی۔ آج تو دے دیں۔ ماں نے اپنے دونوں بچوں کے معصوم چہرے پر نگاہ ڈالی بھوک کی زیادتی سے دونوں کے چہرے کملاۓ ہوۓ تھے۔ بس شام تک صبر کر لو تمہارے ابّا آ جائیں گے نہ پھر ہم سب ساتھ بیٹھ کر مزے لے کر کھانا کھائیں گے۔
علی اور عائشہ کا منہ مزید انتظار کا سُن کر اُتر گیا تھا۔ میرے پیارے بچوں ادھر آؤ۔ اُس نے پیار سے دونوں بچوں کو اپنے قریب بُلایا اور اپنے گلے لگاتے ہوۓ کہنے لگی۔ تم دونوں کو پتہ ہے اللہ تعالٰی کو صبر کرنے والے بچے بہت پسند ہیں اگر تم دونوں صبر کرو گے تو بہت میٹھا پھل اللہ تمہیں تحفے میں دیں گے۔ سچ اماں؟ علی نے حیرت سے منہ کھولے معصومیت سے پوچھا۔ ہاں بالکل ماں نے مُسکرا کر اپنے لخت جگر کا گال چومتے ہوۓ کہا۔
اماں میں بھی صبر کروں گی مجھے بھی میٹھا پھل کھانا ہے۔ عائشہ نے پُر جوش ہوتے ہوۓ معصومیت سے کہا۔ بس تو پھر ٹھیک ہے ابھی تم دونوں کھیلو شام میں ہم سب ایک ساتھ کھانا کھائیں گے۔ وہ دونوں خوشی خوشی اپنی بھوک کو بُھلاۓ کھیلنے میں مشغول ہو گۓ اور ماں اپنے دوپٹے کہ کنارے سے آنسو صاف کرتی خدا سے دُعا کرنے لگی کہ شام کو جب شوہر گھر لوٹے تو اُسے مایوسی نہ ملے۔
لیکن شام کو جب اُس کا شوہر بیساکی کے سہارے چلتا ہوا خالی ہاتھ اور پسینے میں نہاۓ گھر پہنچا تو اُس کی ہمت جواب دے گئی۔ آپ آج بھی خالی ہاتھ لوٹ آۓ ہیں اور کتنا بہلاؤں میں بچوں کو کتنا جھوٹا دلاسہ دوں؟ آج دوسرا دن ہو چلا ہے بچے کل کے بھوکے بیٹھے ہیں گھر میں ایک چاول کا دانا جیسا نہیں ہے کہ میں بچوں کا پیٹ بھر سکوں اب میں اُن کو اور کس طرح سمجھاؤں؟ شدتِ کرب سے اُس کی آنکھیں گیلی ہو گئی۔
شوہر کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گۓ۔ میں کیا کروں در در مارا مارا پھر رہا ہوں کوئی نوکری کے لیے نہیں رکھتا جہاں نوکری کرتا تھا تمہارے سامنے ہیں دوسری منزل سے کام کرتے ہوۓ نیچے جب سے گرا ہوں پیروں نے ساتھ چھوڑ دیا ہے مالک نے ملازمت سے نکال دیا۔ کوئی چپراسی کی نوکری تک دینے کو تیار نہیں۔ شوہر بے بسی سے کہنے لگا۔ کچھ نہیں کر سکتے تھے تو بھیک مانگ کر ہی لے آتے مجھے اپنی فکر نہیں ہے بس دو لقمے جتںا میرے معصوم بچوں کی بھوک سے مچلتے پیٹ میں چلا جاۓ میرا پیٹ اپنے آپ بھر جاۓ گا۔
اُس نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا۔ خاموشی کے طویل وقفے کے بعد اُس کا شوہر چارپائی سے بیساکی کے سہارے کھڑا ہوا اور دوبارہ دروازے کی راہ لی۔ اب دوبارہ کہا جا رہے ہیں؟ فکر نہ کرو اب کی بار لوٹوں گا تو تم لوگوں کے لیے پکا بندوبست کر کے ہی لوٹوں گا۔ اس عجیب و غریب جواب کی اُس کو سمجھ نہ آئی۔ شوہر کے جانے کے بعد وہ ایک نظر بچوں کو دیکھ آئی جو کھیلنے کے بعد سو چکے تھے۔ وہ بھی چارپائی پر آ کے لیٹ گئی اور سوچوں و فکر کے ناگ اُسے ڈسنا شروع ہو گۓ۔
اس ایک کمرے کے گھر میں جو ایک انتہائی پسماندہ گاؤں میں واقع تھا، یہ ایک کھنڈر نُما کمرہ واحد ان کی ملکیت تھا جہاں آسائشات تو دور کی بات ضروریاتِ زندگی کا بھی فقدان تھا۔ وہ سب اس پر بھی صبر شکر کر کے زندگی گزار رہے تھے پھر اچانک ہی اُس کے شوہر کے ساتھ یہ حادثہ پیش آگیا۔ بس تب سے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گۓ۔ جو تھوڑا بہت اس کے پاس تھا وہ بھی سب بِک چکا تھا۔
والی وارث تو کوئی تھا نہیں کہ مدد کرتا اور ہاتھ پھیلانا معیوب عمل لگتا۔ بس اسی سفید پوشی کی چادر اُوڑھے اُن کی آنکھیں اچھے وقت کی منتظر تھیں۔ لیکن اب بچوں کا رونا بلکنا نہیں دیکھا جاتا تھا۔ بھوک تو اُسے بھی بہت لگی تھی آنکھیں بوجھل ہونے لگی تھیں، سوچتے سوچتے اُس کی آنکھ لگ چکی تھی۔ وہ گہری نیند میں تھی جب کوئی اُسے زور زور سے ہلانے لگا۔ نیم وا آنکھیں کھول کر دیکھا تو عائشہ اور علی دونوں اُسے جگا رہے تھے۔
جانے وہ کتنی دیر سوتی رہی تھی؟ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اماں اب تو شام سے رات ہو گئی ہے میٹھا پھل کب ملے گا؟ اماں اب بھوک برداشت نہیں ہو رہی۔ اچھا تم لوگ یہاں بیٹھو میں تھوڑی دیر میں کھانا پکا کر لاتی ہوں۔ بچوں کے مرجھاۓ ہوۓ معصوم چہرے پھر سے میرے جھوٹے دلاسے سے کھل گۓ تھے۔ وہ کچن میں تو آگئی تھی مگر پکانے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں خالی پتیلی میں پانی بھر کر اس میں پتھر ڈال دیے اور چولہا جلا کر ڈھکن ڈھک دیا بچوں نے کچن میں جھانک کر دیکھا تو خوشی سے نہال ہو گۓ۔
ایک طرف بچوں کے لیے فکر مند تھی تو دوسری جانب اب تک شوہر کی واپسی نہیں ہوئی تھی۔ دل میں عجیب و غریب وسوسے آرہے تھے بار بار کچن کی کھڑکی سے باہر کی جانب دیکھتی مگر شوہر کی واپسی کے امکانات نہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایک گھنٹہ مزید گزر گیا۔ بچے نڈھال ہو کر نیم غنودگی میں جا چکے تھے۔ اچانک ہی باہر سے شور و غُل کی آوازوں نے اُس کو متوجہ کیا۔ دروازہ زور زور سے پیٹے جانے پر بچے بھی سہم گۓ۔
اُس نے دروازہ کھولا تو دو تین گاؤں کے لڑکے کھڑے تھے۔ باجی سکینہ غضب ہو گیا تمہارے میاں نے کھیتوں کے قریب درخت سے لٹک کر خود کُشی کرلی ہے۔ چںد لمحوں کے لیے تو وہ گویا ساکت ہی رہ گئی۔ اگلے پل زمین و آسمان اُس کے سامنے گھومنے لگے، علی اور عائشہ ڈر کے مارے اس کے پیچھے چُھپے ہوۓ تھے۔ تھوڑی دیر میں اُس کے شوہر کا جسدِ خاکی بھی آ گیا پولیس کے پاس تفتیش کی مزید گنجائش نہ تھی کیونکہ اُس کے شوہر نے مرنے سے پہلے ایک خط لکھ چھوڑا تھا جو اُس کی بند مُٹھی سے برآمد ہوا تھا۔
گاؤں کے لوگوں نے تدفین کرنے میں زیادہ دیر نہ لگائی۔ آخری نظر اُس نے اپنے شوہر پر ڈالی اور پھر اپنے دو معصوم بچوں کی طرف دیکھا جو پہلے ہی بھوک سے نڈھال تھے اب خوف سے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ اپنے باپ کی میت کے پاس بیٹھے تھے۔ صبر کے سارے بندھ ٹوٹ گۓ اور پھر جو وہ روئی تو اُس کے ساتھ وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں اشکبار ہو گئی۔ بچے روتے روتے آج پھر بھوکے سو گۓ تھے اور وہ اپنے شوہر کا خط سامنے کھولے بیٹھی تھی۔
مجھے معاف کر دینا سکینہ میں نہ اچھا شوہر بن سکا، نہ اچھا باپ۔ اپنے بچوں کی بھوک مجھ سے دیکھی نہیں جاتی کوئی مجھ اپاہج کو نوکری دینے کے لیے تیار نہیں، بھیک مانگنا میری عزت نفس کو مجروح کرتا ہے اپنے جیتے جی تو میں تم لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکا لیکن میں جانے سے پہلے حکومت وقت سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ میرے دو معصوم بچوں اور میری بیوی کو دو وقت کا کھانا اور اُن کی ضروریاتِ زندگی کے لیے ہر مہینہ معاوضہ دیا جاۓ۔
اور میں اپیل کرتا ہوں کہ اس ملک میں ہر غریب کو روزگار دیا جاۓ تاکہ پھر کبھی کسی باپ کو میری طرح بچوں کے آگے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ سکینہ میری بخشش ہو جاۓ دُعا کرنا میں جانتا ہوں کہ میرا خُدا مجھ سے اس حرام عمل سے بہت ناراض ہو گا۔ اللہ تمہارا اور بچوں کا حامی و ناصر ہو۔ اُس نے خط بند کیا۔ کچن سے جلنے کی بُو آ رہی تھی۔ خالی پتیلی میں اُبلتا پانی خشک ہو گیا تھا پتیلی اور اُس میں رکھے پتھر اُبل اُبل کر جل چُکے تھے اور اس کے ساتھ اُس کا دل بھی جل کر خاکستر ہو گیا تھا۔
اگلے ایک ہفتے کے دوران کوئی دو سے تین اعلیٰ افسر اُس کے گھر کچھ رقمیں لے کر پہنچے تھے ساتھ ہی میڈیا کا نمائندہ لانا نہ بھولے تھے کیونکہ ہمارے ملک میں یہ دکھاوے کا رواج بھی عام ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ بلآخر تین دن کی بھوک برداشت کرنے اور باپ جیسی عظیم نعمت کی قربانی دینے کے بعد آج علی اور عائشہ نے بھر پیٹ کھانا کھایا تھا۔
دونوں معصوموں کے چہرے پر یک گونہ سکون اُتر آیا تھا اور وہ اپنے مرحوم شوہر کے آخری جملے کو یاد کر رہی تھی جب اُس نے آخری بات کہی تھی کہ فکر نہ کرو اب کی بار لوٹوں گا تو تم لوگوں کے لیے پکا بندوبست کرکے ہی لوٹوں گا۔