Muharram
محرم
آپ محرم سے چند دن پہلے کاسمیٹکس کی دکان میں جاکر دکاندار سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ عید سے بھی زیادہ ان کی سیل محرم کے قریب بڑھ جاتی ہے، کالے کپڑوں میں سفید رنگ زیادہ خوبصورت لگتا ہے اور ہم نے چونکہ عزاداری میں جانا ہے تو سب سے منفرد نظر آنا ضروری ہے۔ نوجوان لڑکے محرم سے پہلے ہاتھوں میں رنگ برنگے دھاگے، انگلیوں میں بڑی بڑی انگوٹھیاں پہن لیں گے۔
سوال یہ ہے کہ نئے کپڑے، نئے جوتے، رنگ برنگے دھاگے اور بلیچ کریمیں لگا کر کیا ہم کبھی اپنے کسی قریبی فوتگی والے گھر بھی گئے ہیں؟ ہرگز نہیں، البتہ آلِ نبیؑ کا گھرانہ اتنا مظلوم و غریب ہے کہ ان کے غم میں شریک ہونے کے لئے ہم پوری تیاری کرکے جاتے ہیں۔ جس کے پاس کالے کپڑے موٹے ہیں، جو گرمیوں میں نہیں پہن سکتے یا اتنے پرانے ہو گئے ہیں کہ پھٹ گئے ہیں، چلو اس کا تو نیا سوٹ لینا بنتا ہے۔
مگر ہمارے ہاں محرم سے قبل شادی کی تیاریوں کی طرح شاپنگ کی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسا کرنے والے کم ہوں گے، مگر ان کم کا عمل اکثریت کو بھی بدنام کرتا ہے۔ محرم لباس کی تو نہیں کردار کی تبدیلی کا نام ہے، شمر سے حُر بننے کا نام ہے، ابن مرجانہ کی بجائے جون بننے کا مہینہ ہے، اطاعتِ امام کے تجدیدِ عہد کا نام ہے۔
مگر محرم اب صرف مہینہ رہ گیا ہے، صفِ عزاء میں بناوٹ آچکی ہے، مجلس پڑھنے والے سے لے کر رونے والے تک خرید و فروخت کئیے جانے لگے ہیں، منہ مانگی قیمت لے کر حسینؑ کے گھرانے کی شہادت سنائی جانے لگی ہے۔ کیا ایسی قوم اور ایسی مجالس میں آج بھی جنابِ سیدہؑ تشریف لاتی ہوں گی؟
ہرگز نہیں