Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Tamasha Haye Zindagi

Tamasha Haye Zindagi

تماشاہائے زندگی

سچ یہی ہے کہ اس تماشاہائے زندگی سے جی اُچاٹ ہوچکا۔ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ تماشا گر سے سامنا ہو تو اس سے دوبدو کچھ باتیں کرلی جائیں۔ پھر سوچتا ہوں اس کا فائدہ؟ خالق ہمیشہ درست ہوتا ہے بھلے تخلیق میں کج ہوں یا تخلیق بغاوت پر اتر آئے۔

اس تماشاہائے زندگی کے سارے شب و روز بڑے کڑوے رہے۔ یہاں تک کہ کھیل کود کے دن مشقت کرتے اور راتیں گردن سہلاتے گزریں۔ خوانچہ کا وزن بڑا تکلیف دہ ہوتا تھا۔

میں کوئی حسین بن منصور حلاج ہرگز نہیں کہ کہہ دوں"آو مجھے قتل کردو میرے دوستوں کہ میری موت میں تمہاری حیات ہے"۔ جو شخص زندگی میں دوستوں پر بوجھ بنا رہا ہو وہ تدفین کے مرحلے کب اپنے قدموں پر طے کرتا ہے ان مرحلوں میں بھی تو دوستوں کے کاندھے ہی ہوتے ہیں۔

میرے معاملے میں محض کاندھوں سے کام نہیں چلنا بوجھ برقرار رہے گا۔ ایمان سے بڑھ کر یقین ہے کہ دوست وہ بوجھ بھی اٹھالیں گے۔

یہ جو تماشاہائے زندگی ہے یہ ہے بہت عجیب ہے۔ خوف، محرومیوں، ناانصافیوں اور مشقت نے نجانے کیا کیا پیدا کیا۔ اپنے ہی تصور کردہ خوف اور مشقت کے ساتھ مطالعہ سے پیدا کردہ تصورات کے بُت پوجنا پڑے۔ ہم اور آپ جس سماج میں جینے بسنے پر مجبور ہیں یہاں مکالمہ بہت خاصے کی چیز بن کر رہ گیا ہے اولاً تو بات کرنے سے ہی ڈر لگتا ہے۔

پتہ نہیں کب کہاں کس موڑ پر کوئی خنجر بدست ثواب کی نیت سے جان کو آجائے۔ اس تماشاہائے زندگی کے ماہ و سال میں دو تین بار زبردستی کی شہادت گلے کا ہار بنتے بنتے رہ گئی۔

اب سوچتاہوں ان غازیانِ ایمانی کوثواب کمانے دیتا چلیں کبھی حساب کتاب ہوا تو دیکھیں گے کہ ان محروم غازیانِ ایمانی اور ہمارے ساتھ ہوتا کیا ہے۔

ویسے جس حال و قال میں زندگی بسر ہوئی اس کے بعد حساب بنتا تو نہیں۔

آپ آج کے کالم کی بُنت پر حیران ہوں گے۔ نہ ہوں، یہ روزی روٹی کے معاملات ہرگز نہیں۔ بس کچھ باتیں کرنے کو جی چاہ رہا تھا۔ باتیں آپ (پڑھنے والے) سے ہی کی جاسکتی ہیں۔

اُس کے دروازے پر دستک دے کر حال دل یوں نہیں سنایا جاسکتا کہ اُس کے دروازے مذاہب اور ان کے ذیلی عقیدوں کے فرنچائزیوں نے الگ الگ بنارکھے ہیں ایک دروازہ کھڑکائیں تو دوسروں کے نزدیک گمراہ و لادین۔

اس فتویٰ گیری سے اچھا نہیں کہ اس کے نام پر قائم کسی دروازے پر دستک دی جائے نہ صدا، دوستوں سے حال دل بیان کیا جائے اور پڑھنے والوں سے باتیں کرلی جائیں۔ اس سے زیادہ ممکن بھی تو نہیں۔

میں جب کبھی اس تماشاہائے زندگی سے اچاٹ ہوتا ہوں کتابوں میں پناہ لے لیتا ہوں مگر اب پچھلے چند دنوں سے یہ کوشش بھی رایئگاں جاتی۔ باوجود اس کے کہ حال ہی میں چند اہم کتب منگوائی ہیں لیکن پڑھنے کو جی آمادہ نہیں ہوتا۔ کتاب کے اوراق پر زندگی کی تلخیاں رقص کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔ صرف رقص ہی ہو تو جی بہل جائے۔ آوازیں ہیں، شور ایسا کہ کان پڑی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ حیرانی اور اذیت ہر گزرے لمحے کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔

فقیر راحموں کہتا ہے یار شاہ تم وقت نکال کر امڑی سینڑ کے شہر سے ہو آو مادرِ گرامی کی تربت کے بوسوں اور ملتانی مٹی کی خوشبو سے یقیناً کچھ نہیں بلکہ بڑی تبدیلی محسوس کرو گے۔ مشورہ درست ہے لیکن علالت سفر کے مانع ہے۔ اچھا اس ذکر علالت کو یہی چھوڑکر آگے بڑھتے ہیں۔

ہم ان رزق ہوئی نسلوں کے بچے کھچے ہوئوں میں سے ہیں جن کے خواب تعبیروں سے پہلے چوری ہوتے رہے یا آنکھوں میں ٹوٹتے رہے۔ مزید ظلم یہ ہوا کہ ہمیں نہ کسی نے خوابوں کے چوری ہونے پر دلاسہ دیا نہ کسی نے خواب آنکھوں میں ٹوٹنے سے ان کی کرچیوں سے لگے زخموں کے مداوے کا سامان کیا۔

کئی بار ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ امید بھری زندگی کے خوابوں کے مقابل عاقبت کے خواب کیسے دھڑادھڑ فروخت ہوتے ہیں۔ جب کبھی اس سوال نما سوچ نے دستک دی ہم نے اندر کے شخص کو رسان سے سمجھایا یہ ساری باتیں کرنے کی نہیں ہوتیں۔

وارث شاہؒ کے بقول "بھید والے صندق کا تالہ نہیں کھولتے بلکہ یہ ظاہر ہی نہیں ہونے دیتے کہ اس تالے کی چابی ہماری دسترس یا جیب میں ہی ہے"۔

ہم بھی کیا لوگ ہیں جو موجود ہے اسے بہتر بنانے کے لئے توانائیاں بروئے کار لانے کی بجائے اس میں رنگ بھرنے کا سامان کرتے ہیں جو آنکھ سے اوجھل ہے صرف باتوں میں وجود رکھتا ہے۔

ارے ساعت بھر کے لئے رکئے، بات تماشاہائے زندگی سے شروع ہوئی تھی بھید والے صندق کے تالے کی چابی تک آگئی۔ بھلا اس بھید والے صندق میں یار کی یادوں کے سوا اور کیا ہوگا۔

یہاں جو سجن ہیں وہی یار کے دشمن ہیں۔ ویسے دشمنوں اور حاسدوں کے بیچوں بیچ دوست فقط ایک بھی ہو تو آدمی لڑتا بھڑتا آگے بڑھتا رہتا ہے۔

ہم بھی تو دوستوں کے دم پر ہی یہاں تک آن پہنچے ہیں ورنہ اس تماشاہائے زندگی نے کب کا نگل لیا ہوتا۔

حسین بن منصور حلاجؒ نے کہا تھا "دنیا مجھے دھوکہ دیتی ہے گویا میں اس کے حال سے ناواقف ہوں۔ میں نے اسے متاجی کی حالت میں پایا اور اس کا کُل حسن اسے لوٹا دیا۔ وہ بھی کیا دن تھے جب میں، اس کے ملال سے خوفزدہ ہوگیا تھا"۔

لگ بھگ یہی صورت آجکل ہماری ہے اب اس تماشاہائے زندگی کے بیچوں بیچ آدمی کدھر جائے کوئی جائے پناہ، ڈھال اور ڈھارس، مسائل کا سورج سوا نیزے پر سے پلٹ ہی نہیں رہا۔

گاہے یہ احساس مزید دوچند ہوجاتا ہے کہ وقت ہر گزرے لمحے کے ساتھ کم ہوتا جارہا ہے۔ جب کبھی یہ احساس دوچند ہوتا ہے تو خود کو تسلی دیتا ہوں۔ اس کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔

بس یہی حال ہے جب کسی چہرے کی طرف نظر اٹھے اور وقت کی باگ کس کے تھام لینے کی تمنا ٹھاٹھیں مارے لیکن کیا حال کے قیدیوں کی اپنی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے؟

فقیر راحموں کہتا ہے کہ تماشاہائے زندگی کے کرداروں کو بس اپنے حصے کا کردار ادا کرتے رہنا ہے۔ بھلا زندگی کے بغیر کردار ادا ہوتے ہیں۔

آدمیوں کے جنگل میں کٹھ پتلیوں کا بے ہنگم ہجوم ہے۔ انہیں نچانے والے خود بھی ترتیب سے محروم ہیں۔ فصیح اقوال اور فہیم استدلال والے لوگ کیا ہوئے۔ ہمارے چار اور تو جو کچھ ہے انہیں دیکھ کر گریہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔

ضبط نفس جن کی سواری تھی وہ کیا ہوئے۔

شاہؒ (سیدی بلھے شاہ) کہتے ہیں"بات لبوں تک آجائے تو کردینی چاہیے اسے روکنے سے جھوٹ کو پرواز کا موقع مل جاتا ہے"۔

اب ہم کیا کہیں بس یہی کہ اس علم تحقیق اور جستجوں کے طفیل تماشہائے زندگی کا رزق بننے سے بچ رہے۔ جدائیوں کے دکھوں نے اس جان کا جو حال کیا وہ ہم ہی جانتے ہیں۔

اب چار اور کے لوگوں کو کون سمجھائے کہ "جاڑے میں طور کی آگ تاپنے کی خواہش پر صرف ہنسا جاسکتا ہے"۔

عاشق تو طور کی آگ کا ایندھن بننے کی خواہش پر قربان ہوتے ہیں۔ ہاں مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ عاشق ہیں کتنے؟

ان سموں شاہ حسینؒ یاد آرہے ہیں۔

کہتے ہیں"ہم نے آنکھوں کا کہنا مان لیا، کالے ریشم پر سفید رنگ نہیں چڑھتا، کالے کوے کبھی سفید نہیں ہوتے"۔ زندگی کا دم آخر خاک کے سوا کچھ نہیں اس پر اترانا کیسا"۔

ہمیں تو اب تک کے سفر میں بس یہی سمجھ میں آیا کہ بہادر وہی ہے جو نفس اور غصے پر قابو پاکر تقسیم کی سچائی پر یقین رکھے۔ ہمارے ہاں بھلا نفس پرستی اور نخوت کے سوا ہے کیا۔ کیسی عجیب سی بات ہے کہ عابدوں کے غول میں انسان ایک بھی نہیں ملتا۔

سارے عابد اپنی عبادات کے تکبر میں اڑتے پھرتے ہیں۔

تماشاہائے زندگی کے جنگل میں خاردار جھاڑیوں (خواہشوں) سے دامن بچاکر جی لینا ہی کافی نہیں پھر بھی اس طور جی لینا غنیمت ہے۔

لوگوں کا کیا ہے وہ تو امیدیں بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ امیدوں کے بڑھاتے چلے جانے سے آدمی خود سے ایسا بچھڑتا ہے کہ پھر مل نہیں پاتا تب بھی جب سانسوں کی ڈور کے کٹنے پر زندگی کی پتنگ لوٹنے والے کاٹھیاں لئے دوڑ رہے ہوں۔

مکرر عرض ہے تماشاہائے زندگی سے جی اچاٹ ہو لیا کبھی کبھی دل کرتا ہے تماشا گر سے ملاقات ہو۔ بہت سارے سوال ہیں اس کے سامنے رکھنے کو ان میں کچھ سوال تو فقط اس کے سامنے لبوں سے آزاد کئے جاسکتے ہیں۔

لوگ تو کُند خنجر لئے ثواب کمانے کی نیت سے سرشار چار اور گھومتے دیکھائی دے رہے ہیں۔

سچ یہی ہے کہ اگر ہم نے اپنے حصے کی بات دفن کرنے کی بجائے کی ہوتی تو اندھیرے اور حبس میں کچھ تو کمی ہوسکتی تھی۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo