Mehsureen e Gaza, Dushmano Aur Doston Ke Dhande
محصورینِ غزہ، دشمنوں اور دوستوں کے دھندے
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بعض عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اسرائیلی فوج غزہ میں فلسطینیوں کے "ہولو کاسٹ" میں مصروف ہے۔
وہ عالمی طاقتیں جن کی ذمہ داری یہ بنتی تھی کہ وہ اپنے دو ریاستی فارمولے کو قبول کرکے معاہدہ کرنے والے فریقوں کو علاقائی امن و استحکام کی خاطر معاہدے کی پاسداری پر مجبور کریں وہی ایک فریق اسرائیل کی نہ صرف سیاسی طور پر حمایت کررہی ہیں بلکہ اسے دھڑادھڑ جدید اسلحہ، گولہ بارود کے ساتھ دفاعی معاونت بھی فراہم کررہی ہیں۔
یہ امر بھی اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ اس ساری صورتحال میں اسلامی دنیا کہلانے والے مسلم ممالک زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنے کے لئے آمادہ نہیں یہاں تک کہ گزشتہ دنوں ریاض میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے شرکا اس سادہ سی تجویز پر اتفاق رائے نہ کرپائے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک اسرائیلی کمپنیوں کو پٹرولیم مصنوعات کی فروخت بند کردیں۔ ان حالات میں غزہ میں ہر پل مرتے فلسطینیوں میں سے بچ رہنے والوں کا مستقبل کیا ہوگا یہ مسئلہ فیثا غورث ہرگز نہیں۔
تقریباً سوا ماہ سے جاری اسرائیلی حماس جنگ میں 20 ہزار فلسطینی مردوزن اور بچے جاں بحق ہوچکے۔ ان میں 5 ہزار سے زائد بچوں کی عمریں ایک دن سے 5 سال کے درمیان ہیں۔ اسرائیل کی مسلسل بمباری سے اب تک 10 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
حماس کی دعویداری 7 سو اسرائیلی مارنے اور کچھ سرکاری و نجی عمارات کو نقصان پہنچانے کی ہے ایک باقاعدہ منہ زور طاقتور ریاست اور ایک محصور علاقے کی مزاحمتی تنظیم کے درمیان مقابلہ سرے سے ہے ہی نہیں اسرائیلی فوج جدید ترین جنگی وسائل سے مالامال ہے اور سوا ماہ سے جاری اس جنگ میں اس نے ماضی کی طرح شقاوت قلبی کا کھلم کھلا مظاہرہ کیا۔ بربریت کے ان شرمناک مظاہروں کو کرہ ارض پر جمہوریت اور انسانی حقوق کے پاسدار کہلانے والے تین بڑے ممالک امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے نہ صرف روزانہ کی بنیاد پر درست قرار دیا بلکہ امریکی صدر جوبائیڈن تو غزہ کے ہسپتالوں پر اسرائیلی حملوں کو دفاعی جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر اس خطرے کا نشان مٹادے جو مستقبل میں بھی اس پر منڈلاسکے۔
مسلم دنیا کے غیر حکومتی رہنمائوں کے جذباتی بیانات ہوں یا اہل اقتدار کا زبانی جمع خرچ، محصورین غزہ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ امر بجا ہے کہ نظام ہائے مملکت اور جغرافیائی حدبندیوں کےساتھ عالمی قوانین مسلم دنیا کے ممالک کو اس جنگ میں براہ راست کودنے سے روکتے ہی نہیں بلکہ بظاہر ایسا کیا جانا ممکن بھی نہیں اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف میدان جنگ میں فلسطینیوں کی عملی مدد کرنے کے علاوہ بھی بہت سارے طریقہ کار موجود ہیں۔
مثلاً اسرائیل کے پڑوسی مسلم ممالک اس پر فضائی پابندی عائد کرسکتے ہیں۔ مصر، اردن، ترکی، متحدہ عرب امارات اور دیگر وہ مسلم ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی روابط ہیں وہ انہیں یکسر ختم نہ بھی کریں تو محدود تو کرسکتے ہیں۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اپنا سیاسی و معاشی نقصان کرنے پر آمادہ نہیں۔
حالیہ اسرائیل حماس جنگ کے ابتدائی دنوں میں امریکہ اور فرانس کی ہمنوائی و تائید سے اسرائیلی قیادت مسلسل یہ الزامات لگاتی رہی کہ غزہ میں قائم ہسپتالوں کے نیچے بنائی گئی سرنگوں میں حماس کے جنگی دفاتر قائم ہیں ان الزامات کے حق میں ٹھوس شواہد متعدد ہسپتالوں پر اسرائیلی قبضے کے باوجود دنیا کے سامنے نہیں لائے جاسکے۔
موجودہ صورتحال میں بعض حلقوں کے اس اعتراض کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ حماس کی سیاسی قیادت خود تو محفوظ مقام پر مقیم ہے غزہ کے عام لوگوں کی زندگیوں کو دائو پر لگادیا گیا۔
یہ اعتراض نما سوال اٹھانے والے کم از کم دنیا کو یہ ضرور بتادیں کہ جارح ریاست اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا کوئی دوسرا راستہ بھی ہے؟
اس طرح دو ریاستی فارمولے کا معاملہ ہے اس سے جہاں اسرائیل نے منہ موڑا وہیں فلسطینیوں کے ایک گروپ حماس نے بھی لاتعلقی اختیار کی۔ غزہ میں عوامی اور سماجی طور پر حماس کو ہی واضح مقبولیت و تائید حاصل ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اور حماس دونوں کا رویہ، طرزعمل اور مستقبل کے حوالے سے سوچ میں بہت فرق ہے لیکن فلسطین کی آزادی کے نکتہ پر دونوں متفق ہیں۔
تنازع فلسطین کے دیرپا اور پرامن حل کی حمایت کرنے والے طبقے کے خیال میں حماس نے فلسطینی اتھارٹی کی عالمی سطح پر منظور حکومت سے ماضی میں علیحدگی اختیار کرکے خود کو محدود کرلیا۔
عین ممکن ہے کہ یہ سوچ درست نہ ہو لیکن یہ درست ہے کہ خود فلسطینیوں کا داخلی اتحاد موجودہ صورتحال میں ایک موثر قوت ثابت ہوسکتا تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قومی آزادی کی تحریک کو دو مذاہب کے پیروکاروں کے تصادم کے طور پر پیش کرنے اور دیکھنے والے فلسطینیوں کے ہمدرد ہرگز نہیں بلکہ یہ عناصر مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک فریق کے طور پر اپنی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔
اسرائیل فلسطین تنازع فلسطینیوں کو ان کی قومی خودمختاری اور ریاستی شناخت سے محروم کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس کا حل بہر طور دو ریاستی فارمولے کی قبولیت اور اسے عملی صورت دینے میں ہی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدوں کے بعد اسرائیل نے بطور ریاست اس وسعت قلبی اور ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا تاکہ دو ریاستی فارمولے کو عملی شکل دینے کے لئے پرامن انداز میں آگے بڑھا جاسکتا۔
اس کے برعکس مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کی آبادکاری کے منصوبے پر تواتر کے ساتھ نہ صرف کام جاری رہا بلکہ اس عرصہ میں روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
امن یا جنگ دونوں طرح کے حالات ہوں یا عمومی صورتحال، تالی بہرصورت ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ انسانی تاریخ میں برپا ہوئی جنگوں کا اختتام ہمیشہ دو صورتوں میں ہوا اولاً ایک فریق دوسرے کے نظام جغرافیہ، سماجی وحدت کو حرف غلط کی طرح مٹاکر مقبوضہ جات قائم کرلے ثانیاً مذاکرات کی میز پر جنگ بندی اور واپسی کا راستہ تلاش کیا جائے۔
آج کی جدید دنیا میں مقبوضہ جات تو موجود ہیں جیسا کہ فلسطین، مقبوضہ کشمیر اور عربوں کے وہ دوسرے علاقے جو اسرائیل کے قبضے میں ہیں مگر یہ ممکن نہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کو حرف غلط کی طرح مٹادے۔
تقریباً سوا ماہ سے جاری اسرائیلی حماس جنگ میں تین بڑی عالمی طاقتوں اور ان کے ہمنوا یورپی ممالک کا رویہ انتہائی شرمناک ہے تو مسلم دنیا کا رویہ بھی باعث شرم ہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ایک فریق کے سرپرست دفاعی سازوسامان تیار کرنے والی فیکٹریوں کا کاروبار جاری رکھنا چاہتے ہیں اور دوسرے فریق کے ہمدرد چندوں، بیانات اور ریلیوں سے لہو گرمانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
خمیازہ محصورین غزہ بھگت رہے ہیں جن کے 20 ہزار سے زائد پیارے حالیہ جنگ کا ایندھن بن چکے۔ لگ بھگ 10 لاکھ افراد اب تک گھروں سے محروم ہوچکے ہیں۔ پینے کے صاف پانی، بجلی، گیس، خوراک اور ادویات خواب بن کر رہ گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ محصورین غزہ کے سروں پر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور بھیانک المیہ منڈلارہا ہے اوران کے ہمدرد مسلم ممالک بیان بیان کھیل رہے ہیں۔
محصورین غزہ کو اس صورتحال سے کیسے نجات ملے گی یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو غور کرنا چاہیے اور محض غور ہی نہیں بلکہ آگے بڑھ کر جارح کا ہاتھ بھی روکنا ہوگا۔