Irshad Amin, Kuch Yaadein Kuch Baatein
ارشاد امین، کچھ یادیں کچھ باتیں
چاچڑاں شریف ضلع رحیم یارخان کے سفید پوش اور محنت کش خاندان سے تعلق رکھنے والے ارشاد امین نے اپنے سوا چھ دہائیوں پر پھیلے سفر حیات میں بہت سارے اتار چڑھائو دیکھے بھگتے وہ ہر بار مشکل حالات سے مردانہ وار مقابلہ کرکے پھر سے زندگی کی دوڑ میں شامل ہوجاتا تھا۔ مطالعہ وسیع تھا اور حلقہ ارباب بھی۔ اسے جب کوئی کتاب تحریر نظم یا شعر من بھاتا دوستوں کو فون کرتا اور پڑھے ہوئے پر تبصرے سے آگاہ کرتے ہوئے تاکید کرتا کہ اسے ضرور پڑھو۔
سعودی عرب سے واپسی پر اس نے لاہور میں ڈیرے ڈالے اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ درمیان میں اسلام آباد اور ملتان میں بھی پڑائو ڈالا لیکن پھر واپسی لاہور ہی ہوئی۔ اس کی لاہور میں تدفین پر کچھ احباب نے سوال کیا، اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ مرحوم و مغفور ارشاد امین کے وارث تو اس کی اہلیہ محترمہ اور صاحبزادی ہی ہیں وہ لاہور میں ہی مقیم ہیں۔
اس کے سانحہ ارتحال کے بعد ایک مختصر تحریر ہمارے دوست معروف ادیب و دانشور اور ارشاد امین کے ہم زلف سعید احمد نے لکھی اور ایک کاٹ دار تحریر برادر عزیز شاکر حسین شاکر نے رقم کی۔ دونوں تحریریں جگ جہان کے لئے آئینہ ہیں۔
وہ یاروں کا یار تھا زندگی اور جمع پونجی دوستوں اور تعلق داروں پر نچھاور کرنے میں اس نے کبھی تامل نہیں برتا ہم کہتے تھے اس کے ہاتھ میں ایک سے زائد چھید ہیں پیسہ رکتا ہی نہیں۔ ہم برسوں اکٹھے رہے پہلے لاہور میں لاء کالج کے ہاسٹل میں لالہ ولی محمد انجم کے کمرے میں پھر ماڈل ٹائون کے این بلاک والے فلیٹس میں۔
کوٹھے پنڈ والا ہمارا آشیانہ سرائیکی اور سندھی دوستوں کے لئے ہمیشہ کھلا رہا۔ دوست ہماری کتابیں لے جاتے اور پھر مانگنے پر کہتے "یار مردو کیا سو ڈیڈھ سو روپے دی کتاب ہائی"۔ ارشاد کہتا یار شاہ انہیں کون سمجھائے کہ اس سو ڈیڑھ سو کی کتاب کو خریدنے کیلئے ہم اکثر ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔
خرچیلہ ہونے کے علاوہ وہ خوش لباس بھی تھا اور کتابوں کا رسیا بھی۔
ایک زمانے میں اس نے ملتان میں ہفت روزہ "الشمش" ٹھیکے پر لے کر روزگار کا سلسلہ شروع کیا۔ فاطمہ جناح ہسپتال کے قریب ایک گلی میں مکان کرایہ پر لیا اسی میں دفتر تھا اور قیام بھی۔ یوں کہہ لیجئے دفتر کے کام کم ہوتے تھے مہمان نوازی زیادہ۔ مہمان نوازیاں ہی اس جریدے کی بندش کا سبب ٹھہریں۔
اس کے دفاتر (مختلف اوقات میں جریدوں، پبلی کیشنز اور اخبار کے لئے بنائے گئے) میں ہمیشہ دسترخوان تیار رہتا تھا بس مہمان آئے اور فرمائش کرے۔
لاہور میں اس نے طویل عرصے تک ایف ایم 103 چیف نیوز ایڈیٹر کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ ہفت روزہ "ہم شہری" لاہور کی ادارت بھی سنبھالی اور خوب نبھائی۔
سرائیکی وسیب اور ملتانیوں سے اس کی محبت مثالی رہی۔ ملتان کے دوستوں میں سے اس کا سب سے زیادہ تعلق مرحوم تاج محمد خان لنگاہ، مرحوم لالہ سید زمان جعفری، مرحوم رضو شاہ (سید حسن رضا بخاری) مرحوم عزیز نیازی۔ مظہر عارف اور منصور کریم سیال سے رہا۔ اسداللہ خان لنگاہ مرحوم کے ساتھ بھی اس کی بہت نبھتی تھی۔
مرحوم تاج محمد خان لنگاہ نے جب سرائیکی صوبہ محاذ کے بعد پاکستان سرائیکی پارٹی بنائی تو ارشاد امین اس کے بانیوں میں شامل تھا۔ لنگاہ سئیں کے مال روڈ لاہور والے دفتر میں ان کی لاہور آمد پر ہم گھنٹوں سرائیکی قومی تحریک کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرتے۔
ارشاد امین سرائیکی قومی شناخت اور فیڈریشن میں اکائی (صوبہ) کے حصول کے لئے ہمیشہ پرجوش رہا اس کے لئے وہ دامے درمے سخنے مدد کے لئے تیار رہتا۔ مہرے والہ کے سالانہ سرائیکی اجتماع میں شرکت کے لئے بھی اس کا یہی جوش و جذبہ ہوتا تھا۔
پچھلے چند ماہ کے دوران اس سے دو تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں ایک بار میرے گھر پر وہ چھوٹے بھائی کی وفات پر تعزیت کے لئے عرفان ہوت کے ہمراہ آیا دوسری بار عزیزم معظم علی کی قیام گاہ پر جہاں پروگریسو تھنکر فورم کا مشاورتی اجلاس تھا۔
گزرے برسوں میں پیش آنے والے ایک دو حادثات کی وجہ سے کچھ عوارض مسلط ہوئے لیکن اس کی جہاں گردی، دوستوں سے ملنے ملانے اور بالخصوص سرائیکی وسیب کے سفر میں کوئی امر مانع نہیں ہوا۔
اب بھی ملتان روانگی سے قبل اس نے ٹیلیفون پر جتنی گفتگو کی اس میں جو جوش و جذبہ اور وسیب سے والہانہ محبت کا اظہار تھا وہ مثالی تھا۔ کسے معلوم تھا کہ اس کا یہ سفر ملتان سانس لیتے آدمی کا آخری سفر ہوگا پھر اس کا جسد خاکی ایمبولینس میں ملتان سے لاہور بھیجا جائے گا۔
ارشاد امین جیسے دلبر کا سانحہ ارتحال یقیناً صدمے کا باعث ہے اسے ملتان سے ایک خاص انس تھا۔ اس انس کی بدولت میں اسے عاشق ملتان سمجھتا کہتا تھا۔ وہ تھا بھی عاشق ہی یہ عشق سرائیکی سے شروع ہوتا اسی پر تمام بھی۔
اپنی فہم کے حوالے سے وہ ایک ترقی پسند تھا۔ بھٹوز اور پیپلزپارٹی کے لئے اس کی محبت مثالی رہی اس کے خیال میں پیپلزپارٹی سرائیکی وسیب کے تل وطنیوں کے لئے آخری مورچہ ہے۔ اس موقف کی بنیاد پر بہت سارے قوم پرست دوست ناراض بھی ہوئے لیکن وہ اپنے موقف کو صائب قرار دے کر اس پر آخری سانس تک ڈٹا رہا۔
ارشاد امین ہمارے ان دوستوں میں نمایاں تھا جس نے جمع اور طمع کو پالنے کی بجائے محبتوں، دوستوں، کتابوں، مکالمے اور جدوجہد کو عزیز رکھا۔ محنت کش سفید پوش گھرانوں کے جو نوجوان بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں انہیں اپنا آپ منوانے کے لئے کڑی مشقت کرنا پڑتی ہے۔
بلاشبہ اس نے بھی زندگی بھر کڑی مشقت کی روزی روٹی کا وسیلہ ہی یہی مشقت تھی۔ اس کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا مختلف الخیال دوستوں سے نبھاتے نبھاتے اس نے زندگی کا سفر پورا کیا۔
بار دیگر عرض ہے سرائیکی اس کا ہمیشہ اوڑھنا بچھونا رہی۔ غالباً 1990ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں اس نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں ایک کانفرنس منعقد کروائی۔ کانفرنس کے مقررین کی تقاریر اور قراردادوں کو لے کر یکِ از مجاور نظریہ پاکستان "نوائے وقت" میں ادارتی نوٹ شائع کیا گیا جس میں کہا گیا کہ کانفرنس منعقد کروانے والے بھارتی ایجنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں۔ نوائے وقت کے اس الزامی فتوے پر ہم سارے دوست خوب ہنسے۔
ہنسنے والی بات تھی بھی اس کی آخری خواہش یہ تھی کہ وہ چاچڑاں شریف میں ایک کمیون قائم کرے جہاں شاندار لائبریری ہو، مہمانوں کے قیام کے لئے چند کمرے، علم و ادب اور سرائیکی قومی تحریک کے طلبا وہاں آئیں قیام کریں پڑھیں اور مکالمہ کریں۔ یہ آخری خواہش پوری نہ ہوپائی اجل نے اسے آن لیا اور وہ رخصت ہوا۔
مرحوم رضو شاہ کہا کرتے تھے "یار ارشاد امین تمہیں دوستوں کے وسیع حلقے سے ڈر نہیں لگتا اکثر دشمن پہلے دوست ہی ہوا کرتے ہیں؟" ارشاد ہنستا اور کہتا "رضو شاہ ساڈے نال دشمنی رکھ تے کوئی کیا کھٹ گھنسی"۔
ویسے بات درست ہے دوست اس نے خود بنائے دشمن بنتے چلے گئے۔ اس کی پرعزم جدوجہد سے عبارت زندگی داستان در داستان ہے۔ حالات کیسے بھی رہے مشکل کتنی بھی بڑی ہوئی اس نے ہمت نہیں ہاری۔ جو کرنا چاہا وہ کیا جو کہنا چاہا ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔
1980ء کی دہائی میں جب ترقی پسندوں نے مل کر عوامی نیشنل پارٹی بنائی سردار شوکت علی اس کے سیکرٹری جنرل تھے ہم دونوں نے سردار شوکت علی کا ایک انٹرویو کیا۔ پتہ نہیں وہ محفوظ کیوں نہ رہ سکا کہیں سے مل جاتا تو خاصے کی چیز ہوتا پڑھنے والوں کے لئے۔
دوستوں کے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر وہ ایسے خوش ہوتا تھا جیسے کوئی پیارا ہوسکتا ہے۔ ان دنوں وہ "ہم شہری"کے نام سے بنائی ویب سائٹ کے لئے سرگرم عمل تھا اس دوران پی ٹی وی ملتان سنٹر سے معاملات طے پاگئے۔
بہتر دنوں، سکون اور سکھ کے لئے اس نے ملتان کا قصد کیا۔ سچ پوچھیں تو زندگی کو نئے ڈھنگ سے آباد کرنے کا اس کا جوش دیدنی تھا۔
اپنے پیاروں، دوستوں، احباب سب کو چھوڑ کر وہ دنیا سرائے سے پڑائو اٹھاگیا۔ زندگی کا انت سانسوں کی ڈور ٹوٹ جانے پر ہوتاہے۔ ارشاد امین کی عمر کی نقدی بھی تمام ہوئی۔ حق تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے، آمین۔