Ilzamati Siasat Ki Dhool Aur Dehshat Gardi Ka Khatra
الزاماتی سیاست کی دھول اور دہشت گردی کا خطرہ
سیاست کا میدان گرم بلکہ گرماگرم ہے۔ آج نومنتخب سینیٹرز حلف اٹھائیں گے بعدازاں چیئرمین اور وائس چیئرمین سینیٹ کے عہدوں پر انتخاب ہوگا۔ میدان سیاست میں دعوئوں اور الزامات کی دھول ہی دھول ہے۔ حکومت کے لئے ایوان بالا میں حاکمیت (چیئرمینی) اہم ہے۔ ظاہر ہے پی ڈی ایم بھی چاہے گی کہ اپنی عددی اکثریت کو عملی طور پر ثابت کرکے ایوان بالا کا کنٹرول حاصل کرے۔ دو دن اُدھر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اور جمعرات کو نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے الزام لگایا کہ بعض ادارے، ہمارے سینیٹروں پر دبائو ڈال رہے ہیں۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری بھی یہی سمجھتے ہیں۔
اُدھر وہ "دانشوڑ " میدان سے غائب ہیں جو قبل ازیں کہہ رہے تھے کہ یوسف رضا گیلانی کا سینیٹر بننا اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی سے تھا۔ عجیب رضامندی تھی کہ حکمران اتحاد الیکشن کمیشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں گیلانی کا نوٹیفکیشن رکوانے پہنچا۔ دوسری طرف بیانات ہیں، جناب شبلی فراز نے پہلے تو سینے پر ہاتھ مار کر کہا "ہم جیتنے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں گے"۔ دو دن بعد یوٹرن لے لیا۔
آپا فردوس اعوان البتہ میدان میں ڈٹی ہوئی ہیں ان کا خیال ہے کہ سیاست بچوں بچونگڑوں کا کھیل نہیں۔ وہ صحیح کہتی ہیں۔ تجربہ بھی کوئی چیز ہوتا ہے۔ 20سال کی سیاسی زندگی میں چوتھی سیاسی جماعت میں ترجمانی کے فرائض ادا کرتے ہوئے اتنا تو ان کا فرض بلکہ حق ہے کہ وہ مخالفین کو رگڑے لگائیں۔ سینیٹ ارکان کے لئے انتخابی عمل کے دوران الزام تراشی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ابھی جاری ہے۔ وزیراعظم کا غصہ بھی کم نہیں ہوا۔ بدھ کو انہوں نے ایک اجلاس میں پھر سے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کیا۔ اس موقف پر کچھ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن فقیر راحموں کے ایک "جگری" دوست کی وجہ سے خاموشی اچھی ہے۔
پچھلی شب ہمارے دوست میر احمد کامران مگسی اور حارث اظہر نے ایک ہی سوال پوچھا اور وہ یہ کہ "جب بھی اپوزیشن اپنی حکومت مخالف سیاسی تحریک کے کسی مرحلہ کا اعلان کرتی ہے تو ملک میں کورونا کیوں یکدم بڑھنے لگتا ہے اور دہشت گردی کے خطرات کیوں بڑھ جاتے ہیں "۔ سوال دونوں دوستوں کا ہے تو درست۔ کورونا وباکی صورتحال کو جب حکومت تسلی بخش کہہ رہی تھی تو عرض کیا تھا کہ غلط معلومات دے کر لوگوں کی مشکلات میں اضافہ نہ کریں۔ کورونا وبا کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرے اور کیا کرے حکومت البتہ دہشت گردی کے امکانات والی بات ہوائی بالکل نہیں۔
اس حوالے سے گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ نے جو کہا ہے اسے شمالی وزیرستان میں گزشتہ چند دنوں کے دوران ہونے والے دو آپریشنوں کے دوران طالبان کے مختلف گروپوں کے 8کمانڈروں اور 21 دہشت گردوں کی ہلاکت کے حوالے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ قبل ازیں ان سطور میں یہ عرض کرتا رہا ہوں کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف گروپوں اور داعش خراسان کے درمیان افغانستان اور پاکستان میں مشترکہ کارروائیوں کے لئے معاملات طے پاگئے ہیں۔
فروری کے تیسرے ہفتہ میں داعش خراسان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف گروپوں کا اجلاس افغانستان کے کنٹر صوبے میں منعقد ہوا تھا اس اجلاس میں بنائے گئے منصوبوں پر عمل کے لئے ہی ٹی ٹی پی کے مختلف گروپوں کے کمانڈراور ان کے ساتھی سرحد پار کرکے پاکستانی حدود میں آئے تھے۔ بروقت اطلاع پر ان گروپوں کے خلاف آپریشن کئے گئے جس میں 8 کمانڈر اور 21 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ کورونا وبا کے بڑھاوے کی خبریں سیاسی ہتھکنڈہ ہوں لیکن دہشت گردوں کے خلاف حالیہ چند کامیاب آپریشنوں کے بعد یہ خطرہ موجود ہے کہ دہشت گردوں کے فرار ہونے والے ساتھی ملک کے مختلف حصوں میں مذموم کارروائیوں کے پروگرام پر عمل کریں۔ اس سارے معاملے کو زمینی حقائق اور دستیاب معلومات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس بات پر سیاست صرف اس لئے نہ کی جائے کہ یہ وزیر داخلہ شیخ رشید نے کی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ خود علاقائی اور عالمی سطح کے آزاد ذرائع ابلاغ اس امر کی تصدیق کررہے ہیں کہ داعش اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف گروپ پاکستان اور افغانستان میں اپنی کارروائیوں کے لئے سرگرم ہونے کے لئے پرتول رہے ہیں۔
ہماری دانست میں اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ انتہا پسندوں کے معاشرے میں موجود ہم خیالوں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جائے۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ کالعدم عسکری تنظیموں کے ہمدردوں کی بڑی تعداد ہمارے معاشرے میں نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ اپنی آراء کے اظہارمیں بھی لیت و لعل سے بھی کام نہیں لیتی۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت اور سکیورٹی اداروں نے ان ہمدردوں اور اُن مراکز کے خلاف کارروائی نہیں کی جو عسکریت پسندوں کے لئے وسائل فراہم کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں البتہ یہ کہنا مناسب نہیں ہوگاکہ دہشت گردی کا ہوا صرف اپوزیشن کی تحریک میں خوف و ہراس پیدا کرنے کیے لئے چھوڑا گیا ہے۔