Bayanat Ka Mulakhra
بیانات کا ملاکھڑا
الیکشن کمیشن اور نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے عام انتخابات کے حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے بعض حالیہ بیانات پر ردعمل میں کہا ہے کہ انتخابات شفاف اور منصفانہ ہوں گے۔ صدر ایک جماعت کی نہیں وفاق کی علامت بنیں انتخابات کی تاریخ دیئے جانے کے بعد صدر نے اس حوالے سے بعض بیانات اور انٹرویو میں جو باتیں کیں ان سے لگتا ہے کہ وہ انتخابات کو مشکوک بنارہے ہیں۔
نگران وزیر اطلاعات نے میڈیا سے کہا کہ ہمارا کوئی گھوڑا نہیں اس لئے ایماندارانہ رپورٹنگ کریں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہے۔ ہموار میدان کا مطالبہ کرنے والے ہی پچ اکھاڑ کر وکٹیں لے کر بھاگ گئے تھے۔
ادھر صدر مملکت نے گزشتہ روز ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کیا کہ تمام سیاسی رہنمائوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ صدر نے یہ بھی کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے غلطی ہوئی کہ وہ یہ سمجھتے رہے کہ آئین بالاتر رہے گا۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان کے مطابق شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شبہات پیدا کرنے والے بعض بیانات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ صدر مملکت اپنے آئینی کردار پر توجہ دینے کی بجائے پی ٹی آئی کے ترجمان کا کردار ادا کررہے ہیں۔
صدر مملکت کے بعض حالیہ بیانات کے جواب میں الیکشن کمیشن اور نگران وزیر اطلاعات کا موقف جوابِ آں غزل ہی ہے اور سارے معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ برس تحریک عدم اعتماد کے موقع پر صدر مملکت قومی اسمبلی تحلیل کرنے میں غیرآئینی طور پر شریک رہے ان کی اس شراکت کا سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے زیرسماعت کیس کے حتمی فیصلے میں جن الفاظ میں ذکر کیا اس کے بعد اخلاقی طور پر انہیں اولاً تو اپنے منصب سے مستعفی ہوجانا چاہیے تھا یا پھر عدالتی فیصلے میں اپنے حوالے سے موجود پیراگراف پر عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انتخابی عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع ملنے چاہئیں تو اس پر دو آراء ہرگز نہیں غالب امکان یہی ہے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن ابھی تک اس امر سے آگاہ نہیں ہوپائے کہ پنجاب کے گورنر ہائوس کو ایک سیاسی جماعت کی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ روز پنجاب کے گورنر ہائوس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی صدارت میں نہ صرف مسلم لیگ (ن) کا مشاورتی اجلاس ہوا بلکہ اس اجلاس میں گورنر بلیغ الرحمن نے بطور خاص شرکت کی اور اس موقع پر پروٹوکول کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔
الیکشن کمیشن اور نگران وفاقی حکومت ہر دو کی جانب سے اس اجلاس کا نوٹس نہ لئے جانے پر یہ رائے بجا طور پر درست ہے کہ نگران حکومت ماتحت محکمے اور بعض ادارے مسلم لیگ (ن) کی سہولت کاری میں مصروف ہیں۔ یہ تاثر صرف گورنر ہائوس میں منعقدہ حالیہ اجلاس کی بدولت پیدا نہیں ہوا بلکہ وفاق میں نگران حکومت کے قیام کے اولین دن سے ہی تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
نگران وزیراعظم کے لئے کٹھ پتلی اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کی نوٹنکی سے پیشگی طور پر پس پردہ طے پانے والے معاملات کی پردہ پوشی بھی بری طرح ناکام رہی۔ اسی طرح نگران وفاقی کابینہ کے بعض ارکان اور مشیروں کے ایک خاص جماعت اور شخصیت سے ذاتی تعلقات نے بھی اس تاثر کو تقویت دی کہ نگران وفاقی حکومت آئینی تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی بجائے طے شدہ معاملات کو آگے بڑھانے میں مددگار و سہولت کار سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
اسی اثناء میں پی آئی اے کی نجکاری کے لئے جاری اقدامات کے دوران نجکاری کے امور کے مشیر کی ہدایت پر کراچی میں پی آئی اے کی خریداری کے خواہش مند ایک بینک مالک کی صاحبزادی کو جس طرح بریفنگ دی گئی اور پی آئی اے کے مختلف شعبوں کی کارکردگی و دیگر امور پر رپورٹس اسے دیئے جانے کی خبریں سامنے آئیں اس سے بھی اس رائے کو تقویت ملی کہ نگران حکومت کے لئے پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنے آخری ایام میں جو قانون سازی کی تھی اس کا مقصد ہی یہی تھا کہ نگران دور میں مخصوص مقاصد آسانی کے ساتھ حاصل ہوں اور یہ کہ یہ حکومت انتخابی عمل میں بھی ایک خاص جماعت کے سہولت کار کا کردار ادا کرے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صدر مملکت کے بعض حالیہ بیانات اور انٹرویوز پر تحفظات اور بطور صدر اپنی ہی جماعت کے دور اقتدار میں آئینی حدود سے تجاوز پر سوالات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک بھر میں آواز خلق یہی ہے کہ نگران حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ایک لاڈلے کے لئے سہولت کاری میں مصروف ہے۔
اس تاثر کو بعض جذباتی بیانات یا جواب آں غزل سے دور کرنا ممکن نہیں بلکہ ضروری ہے کہ یہ تاثر انتخابی عمل کے شروع ہونے سے قبل دور کیا جائے تاکہ انتخابی عمل متنازعہ نہ ہونے پائے۔
سیاسی عمل میں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو آزادانہ طور پر حصہ لینے کی صرف باتیں نہیں ہونی چاہئیں بلکہ رائے دہندگان کو اس حوالے سے یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور نگران حکومت کی کوئی پسندوناپسند نہیں۔ اس امر کا یقین اسی صورت دلوایا جاسکتا ہے کہ ایک سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کو بھی سیاسی سرگرمیوں میں آزادانہ طور پر حصہ لینے دیا جائے۔
یہ درست ہے کہ صدر مملکت کو کسی ایک جماعت کا ترجمان بننے کی بجائے وفاق کی علامت بننا چاہیے البتہ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اپنے بعض حالیہ بیانات اور انٹرویوز میں انہوں نے جو باتیں کی ہیں ان سے صرف نظر ممکن نہیں کیونکہ اس طرح کی باتیں صرف صدر عارف علوی نہیں کررہے ملک بھر کے گلی کوچوں اور دیگر مقامات پر ہر خاص و عام بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کررہا ہے۔
اندریں حالات بطور خاص سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب ایک عدالتی مفرور کو ملک واپسی پر طے شدہ قانونی عمل کا سامنا کرنے کی بجائے ایئرپورٹ پر بائیو میٹرک کی سہولت اس طور فراہم کی جائے کہ ہائیکورٹ کا عملہ بطور خاص احاطہ عدالت سے ایئرپورٹ لے جایا جائے تو کون ذی شعور اس بات پر یقین کرے گا کہ انتخابات سمیت کسی بھی معاملے میں سہولت کاری ہرگز نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔
ہماری دانست میں جس اہم مسئلہ سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں وہ ہے تحریک انصاف کو عوامی سرگرمیوں سے بزور طاقت روکنا مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایسے کسی منفی طرزعمل کی تردید کرتی آرہی ہیں لیکن پچھلے ہفتے پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کی ایک درخواست پر اسے سیاسی جلسہ کرنے کی اجازت دی اس عدالتی حکم سے صورتحال پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر عام حالات میں پی ٹی آئی کو عدالت سے جلسے کی اجازت لینا پڑرہی ہے تو کیا اس کا یا صدر مملکت کا یہ خدشہ غلط ہے کہ ملک میں سیاسی عمل میں شرکت کے یکساں مواقع نہیں دیئے جارہے؟
اس ضمن میں پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کا موقف بھی یہی ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ نہیں دی جارہی بلکہ ایک خاص سیاسی جماعت پر نوازشات جاری ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ جوابِ آں غزل سے لوگوں کو متاثر کرنے کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ ان فرائض کی ادائیگی پر توجہ دی جائے جن کی ادائیگی کا آئین اور قانون تقاضا کرتے ہیں۔