Aan Intikhabat, Khadshat O Khatrat
عام انتخابات، خدشات و خطرات
لیجئے بالآخر عام انتخابات کے لئے سپریم کورٹ کے روبرو حتمی تاریخ کا اعلان ہو ہی گیا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیرسماعت کیس میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں 11 فروری 2024ء کی تاریخ دی۔ عدالت نے صدر مملکت سے مشورے کا حکم دیا۔ چیف الیکشن کمشنر اور اٹارنی جنرل بھاگم بھاگ ایوان صدر پہنچے۔ مشورہ ہوا اور پھر 11 فروری کی بجائے 8 فروری کا باضابطہ اعلان کردیا گیا۔
ان سطور میں سال بھر سے عرض کررہا تھا کہ اگر الیکشن ہوئے تو فروری سے 10 مارچ 2024ء کے درمیانی دنوں میں ہی ہوں گے تاکہ سینیٹ کا بحران پیدا نہ ہو۔
آگے بڑھنے سے قبل عام انتخابات کی تاریخ کے لئے صدر مملکت سے مشاورت اور پھر تاریخ کے اعلان پر تحریک انصاف کا ردعمل بھی پڑھ لیجئے۔
"تحریک انصاف نے صدر ڈاکٹر عارف علوی سے منصب صدارت کا وقار قائم نہ رکھ سکنے اور اپنے آئینی کردار کی آدائیگی پر لیت و لعل سے کام لینے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے"۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عام انتخابات کے لئے تمام پہلوان جماعتوں کو اکھاڑے میں طاقت کے مظاہرے کا مساوی موقع ملے گا یا 2018ء یا پھر اس سے پہلے کے انتخابات جیسا "ماحول" ہوگا؟
بظاہر یہی لگتا ہے کہ اگر الیکشن ہوئے تو خاص انتظامات کے تحت ہی ہوں گے۔ ماضی کی طرح ایک عدد لاڈلہ ہوگا۔ ہوگا کیا بلکہ لاڈلہ آگیا ہے جیسے نکالا گیا تھا ویسے لایا گیا ہے۔
خواجہ آصف کے مخصوص الفاظ یاد آرہے ہیں مگر حد ادب سے زیادہ کالم کی بُنت لکھنے میں مانع ہے۔
انتخابات کی تاریخ کےاعلان سے ایک دن قبل آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان پہنچ چکی تھی اس کی تشریف آوری کے ایک دن بعد الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ اور ایوان صدر میں جو پھرتیاں دیکھنے میں آئیں اس پر یہی کہا جاسکتاہے کہ "آئین بڑا نہ قومی مفاد، سب سے بڑا ڈالر رے بھیا"۔
آئی ایم ایف والے پی ڈی ایم دور میں کرائی گئی اس یقین دہانی پر عمل چاہتے ہیں کہ انتخابات کروا دیئے جائیں گے۔ امریکہ نے بارڈر مینجمنٹ والے ساڑھے چار ارب ڈالر کی مستقبل کی منتخب حکومت کے قیام تک ادائیگی ملتوی کردی ہے۔ کچھ دیگر داخلی اور سرحدی معاملات بھی ہیں بعض دوست غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے فیصلے کو صرف غیرقانونی افغان شہریوں کی ملک بدری کی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔
ان کے خیال میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی ملک بدری بھی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ کم از کم مجھے اس سے اتفاق نہیں کیونکہ سولہ سترہ لاکھ غیرقانونی افغان باشندوں (یہ تعداد رجٹسرڈ افغان مہاجرین سے الگ ہے) میں سے لگ بھگ دو لاکھ کا واپس چلے جانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ 6 سے 9 لاکھ افغان تو طالبان کے قبضہ کابل کے بعد آئے، جبکہ پچھلے دس بارہ برسوں کے دوران تقریباً 8 لاکھ افغان شہری پاکستان وارد ہوئے ان میں سے زیادہ تعداد خیبر پختونخوا، بلوچستان کے علاوہ کراچی جابسی۔
ہماری ریاست سولہ سترہ لاکھ غیرقانونی تارکین وطن کو ایک سال کے عرصے میں کیسے نکال پائے گی؟ جہاں تک رجسٹرڈ افغان مہاجرین کا تعلق ہے تو ان کی وجہ سے بھی سیاسی سماجی اور معاشی مسائل ہیں سب سے بڑا مسئلہ انہیں کیمپوں تک محدود رکھنے کی بجائے منہ اٹھاکر پورے ملک میں دندناتے پھرنے کاروبار کرنے اور جائیدادیں خریدنے سے نہ روکناہے۔ مہاجرین کے عالمی قوانین جس طرح ریاست کی سرپرستی میں ہمارے ہاں پامال ہوئے اس کی مثال نہیں ملتی۔
پشتون علاقوں میں مذہب اور قوم پرستی کی سیاست کرنے والی جماعتوں کے اس معاملے پر موقف پر غور کیجئے۔ مشترکہ مفادات سمجھ میں آجائیں گے۔
مختصراً یہ کہ غیرقانونی افغان باشندوں اور دوسرے تارکین وطن کی پاکستان بدری سے انتخابی سیاست کا کوئی تعلق نہیں۔ باردیگر عرض ہے کہ جو ریاست سرحد پر لگی باڑ کاٹ کر دہشت گردی کے لئے آنے والے جنگجوئوں کو نہ روک سکتی ہو وہ سولہ سترہ لاکھ غیرقانونی افغان باشندوں کو ملک سے نکالنے کا عمل کیسے مکمل کرلے گی؟
جو ہورہا ہے وہ نہ صرف وقتی ہے بلکہ اپنے لوگوں کو یہ تاثر دینے کے لئے ہے کہ ہمیں بہت احساس و ادراک ہے صورتحال اور مسائل کا۔
آئیں اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ کیا واقعی انتخابات فروری میں ہوجائیں گے؟ اور کیا یہ رائے درست ہے کہ آئندہ انتخابات ملکی تاریخ کے سب سے متنازعہ اور خونی انتخابات ہوں گے؟ پہلے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ اگر سینیٹ کا آئینی بحران پیدا نہیں ہونے دینا تو انتخابات کرانے پڑیں گے۔
علاقائی ممالک میں سے صرف چین سے ہمارے تعلقات قدرے بہتر ہیں باقی کے پڑوسی جہاں کھڑے ہیں سب کو معلوم ہے۔ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اب پہلے کی طرح ہمارے لاڈ اور خرچے اٹھانے کے لئے تیار نہیں کیونکہ فی الوقت خطے میں اس کی براہ راست مداخلت والی صورتحال ہرگز نہیں ہے۔
ہاں اگر حماس، حوثیوں اور حزب اللہ کے اسرائیل کے خلاف جنگی تعاون کے جواب میں امریکہ کسی بھی ذریعے سے ایران کو کینڈے میں رکھنے کے لئے کوئی انتظام کرتا ہے تو پھر عین ممکن ہے کہ کچھ وقت کے لئے ہمارے "مزے" ہوجائیں۔
ورنہ مسائل اور بھوک و افلاس کی یہی گردان رہے گی۔ امریکہ براہ راست یا کسی ٹوڈی کے ذریعے ایران کو کینڈے میں رکھنے کے لئے پرجوش نہیں ہوگا ہونا ہوتا تو صدر جوبائیڈن گزشتہ روز اپنے اصلی نسلی موقف کے برعکس اسرائیل کو "ہتھ ہولا" رکھنے کے لئے نہ کہتے۔
اس لئے انتخابات کرائے بغیر گزارا نہیں ہوگا۔ البتہ یہ شفاف مشکل ہی ہوں گے کیونکہ ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت موجود نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ من پسند نتائج ماضی کی طرح حاصل کرلے گی اور اس میں مزاحمت نہیں ہوگی؟
امکانات اور خطرات موجود ہیں کہ انتخابی مہم اور پولنگ والے دن ردعمل آئے۔ یہ ردعمل ہی اصل میں فیصلہ کرے گا کہ اسٹیبلشمنٹ نے حقیقت میں کرنا کیا ہے اور حاصل کیا کرنا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ تحریک انصاف اپنے کارکنوں اور حامیوں کو کسی آگ میں جھونکنے کا رسک لے گی۔
9 مئی کے نتائج اس کے سامنے ہیں۔ البتہ تحریک انصاف اگر اپنے حامیوں اور ووٹرز کو پولنگ والے دن فعال کرنے میں کامیاب ہوگئی تو سوفیصد نہ سہی "پروگرام" کے پچاس فیصد دیوار سے لگ جانے کے امکانات ہیں۔
خون خرابے کا سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف رسک نہیں مول لے سکتیں ایک خطرہ جو منڈلا رہا ہے وہ افغانستان میں موجود پاکستانی مسلح جنگجو ہیں یہ کوئی دوچار سو نہیں ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ان جنگجوئوں نے افغان عبوری حکومت کے تعاون سے جو جدید ترین اسلحہ وغیرہ حاصل کیا وہ والی بال کھیلنے کے لئے نہیں ہے۔
ان جنگجوئوں کو انتخابی عمل میں تشدد بھری مداخلت سے روکنا ظاہر ہے ریاست کا فرض ہے۔ یہ کہنا کہ ان میں سے عمران خان سے ہمدردی رکھنے والے گروپ مسائل پیدا کرسکتے ہیں بس ایک بڑھک ہی ہے۔
جس بات کا سب سے زیادہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے وہ غیرریاستی ایکٹرز کی مداخلت نہیں بلکہ وسطی و شمالی پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تصادم کے خطرات ہیں۔
خدشہ ظاہر کرنے والے اس کی جو وجوہات پیش کررہے ہیں انہیں یکسر مسترد کردینا بھی غلط ہوگا۔ تحریک انصاف کی اٹھان مخالفین سے نفرت اور ان کے سیاسی کریاکرم کی سوچ پر ہے اس کے حامی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف بھی اسی لئے ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ جنہیں چور ڈاکو ملک دشمن بناکر پیش کرتی رہی عمران خان کے خلاف انہی کے ساتھ مل گئی
لیکن کیا یہ ناراضگی انتخابی عمل میں خونی تصادموں کا دروازہ کھول سکتی ہے؟ اس حوالے سے اگر کوئی خطرہ نہ بھی ہو تو غور کرنے کی ضرورت بہرطور ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی اپنے لائے ہوئے صدر سے مستعفی ہونے کے مطالبہ میں"گرماگرمی" لاسکتی ہے کیونکہ ڈاکٹر عارف علوی پی ٹی آئی کور کمیٹی کے خیال میں پارٹی مفادات اور عمران خان کے معاملات کے حوالے سے وہ کردار نہیں ادا کرسکے جو کرنا چاہیے تھا۔